وادی کے نامساعد حالات کے مد نظر گورنر انتظامیہ کی جانب سے 12 اگست کو اس اسکیم کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس اسکیم کے ذریعے کاشتکار بلا واسطہ اپنا میوہ سرکار کو فروخت کر سکتے ہیں تاہم کاشتکار اس اسکیم سے مایوس نظر آ رہے ہیں۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ 'نیفڈ (این اے ایف ڈی) کے ذریعے میوہ کو آٹے میں نمک کے برابر کی قیمت ملتی ہے، اس لیے کاشتکار نیفڈ کو اپنا میوہ بیچنے سے گریز کر رہے ہیں'۔
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے ایک کاشتکار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'نیفڈ ہمارے درجہ اول یعنی اے گریڈ سیبوں کو بی گریڈ کے زمرے میں شامل کرکے اسی حساب سے قیمت ادا کر رہا ہے، جس سے ہمیں نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے'۔
گورنر ستیہ پال ملک نے ایک تقریب کے دوران اس اسکیم کو متعارف کرایا تھا اور کہا تھا کہ 'کاشتکاروں کو نقصانات سے بچانے اور میوہ کو براہ راست سرکار کو بیچنے کے لیے یہ اسکیم مرتب کی گئی ہے'۔
تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17ستمبر سے آج تک سرینگر، گاندربل اور بڈگام اضلاع کے کسانوں نے اس اسکیم میں خاص دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ابھی تک ان تین اضلاع میں صرف 1ہزار 5 سو 66 سیب کی پیٹیاں بیچی گئی ہیں، جن میں صرف 9 سو 97 پیٹیاں بیرون ریاست روانہ کی گئی ہیں۔
وہی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ اسکیم کاشتکاروں کے لیے فائدہ مند ہے
محکمہ باغبانی کے ڈائریکٹر پلاننگ و مارکیٹنگ غلام محمد ڈار نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ مقامی باغبان قیمتوں کو لیکر مطمئن نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کو لیکر کاشت کار سوالات و اعتراضات کر رہے ہیں جس کو مد نظر رکھ کر محکمہ وقتاً فوقتاً قیمتوں میں رد و بدل کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بازار میں جب بھی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ہوتا ہے تو اس اسکیم میں بھی تبدیلی لائی جاتی ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کو لیکر کاشت کار سوالات و اعتراضات کر رہے ہیں جس کو مد نظر رکھ کر محکمہ وقتاً فوقتاً قیمتوں میں رد و بدل کر رہا ہے۔