وادی کشمیر میں لوگوں کی اکثریت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ حکومت نے ان کے تقدیر اور مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے۔
دارالحکومت سرینگر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو سیل کر دیا گیا ہے، جگہ جگہ پر خاردار تار سے سڑکوں کو سیل کر دیا گیا ہے اور اضافی فوجی دستے تعینات کر کے لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کیا جا رہا ہے۔
وادی میں مواصلاتی نظام معطل کر دیا گیا ہے۔ موبائل فون اور لینڈ لائن پر پابندی عائد کی گئی ہے اور یہاں تک کہ کیبل ٹیلی ویژن بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اس کشیدہ صورتحال کے درمیان وادی کشمیر کا باقی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
لوگ سہمے ہوئے ہیں اور خوف و ہراس کے سبب اپنے گھروں میں بند ہیں جبکہ پوری وادی میں ایک خاموشی سی نظر آ رہی ہے۔
دوسری طرف ریاست کی مین اسڑیم پارٹیوں کے سربراہان کو بھی گذشتہ دو روز سے گیسٹ ہاوس میں قید رکھا گیا ہے جن میں نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبدللہ، پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی اور پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد غنی لون شامل ہیں۔
سرینگر کے حساس پائین شہر میں صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے ہیلی کاپٹرز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔