ETV Bharat / state

' کاروان امن بس' تاریخ بن گئی - کاروان امن بس خدمات 1947 میں ملک

جموں وکشمیر کے سرینگر سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے درمیان چلنے والی ”کاروان امن بس” کی خدمات ریاست کے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کے بعد تاریخ بن گئی ہے۔

' کاروان امن بس' خدمات تاریخ بن گئی
author img

By

Published : Oct 28, 2019, 5:58 PM IST

Updated : Oct 29, 2019, 8:24 AM IST

مرکزی حکومت نے 5 اگست کو جموں وکشمیر کی دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں لداخ اور جموں وکشمیر میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

کاروان امن بس خدمات 1947 میں ملک کی تقسیم کے دوران الگ ہوئے اہل خانہ کو ملانے کے لیے 2005 میں شروع کی گئی تھی۔

سرینگر اور مظفرآباد کے درمیان پہلی کاروان امن بس کو سات اپریل 2005 کو ہری جھنڈی دکھائی گئی تھی۔

' کاروان امن بس' خدمات تاریخ بن گئی
' کاروان امن بس' خدمات تاریخ بن گئی

یہ بس خدمات شروع کئے جانے کے وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ منقسم کشمیر کے ان باشندوں کو اس بس میں سفر کرنے کی اجازت دی جائے گی جنکے رشتہ دار لائن آف کنٹرول کے دونوں حصوں میں رہ رہے ہوں۔ دونوں اطراف کی حکومتیں، سفر کرنے والے لوگوں کے کوائف کی تصدیق کرنے کی مجاز ہونگی۔ اس بس سے سفر کرنے والے مسافروں کو پاسپورٹ کی جگہ ’سفرپرمٹ‘ دیا جاتا تھا۔ یہ فیصلہ بھی لیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے منظوری ملنے کےبعد ہی سفر کی اجازت دی جائے گی۔

اس سفر کی شروعات کو تقسیم برصغیر کے بعد کشمیر میں اٹھایا جانیوالا سب سے بڑا خیر سگالی قدم مانا جاتا تھا۔ ابتدا میں اسکی اقدام کی خوب پزیرائی ہوئی اور منقسم خاندانوں کے سینکڑوں افراد نے اس بس کے ذریعے سفر کیا۔

لیکن کئی شدت پسند تنظیمیں اس اقدام کی مخالف تھیں۔ بس شروع ہونے سے ایک روز قبل سرینگر میں ایک فدائین حملہ کیا تھا جس کا مقصد اس کوشش کو ناکام بنانا تھا۔ علیحدگی پسند حریت کانفرنس کے لیڈر بھی بس کی شروعات کے معاملے میں آپسی اختلافات کا شکار رہے۔ سید علی گیلانی کی قیادت والے حریت کانفرنس دھڑے نے اس مشن کی مخالفت کی جبکہ میرواعظ عمر فاروق کے گروپ نے نہ صرف اسکی حمایت کی بلکہ بس میں سوار ہوکے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا طویل سفر بھی کیا۔

گزشتہ 24 برسوں کے دوران بس خدمات کئی مواقع پر معطل رہی۔ تودہ گرنے کی وجہ سے،برف باری جیسے قدرتی آفات، کچھ سیاسی وجوہ اور اوڑی سیکٹر میں امن سیتو کی مرمت کے کاموں کی وجہ سے اور کچھ دیگر وجوہات سے بس خدمات معطل رہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان آخری مرتبہ یہ بس 25 فروری کو چلی تھی۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں امن سیتو کی مرمت کی وجہ سے بس خدمات معطل رہنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ بعد میں پاکستان کی جانب سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے اور بس خدمات معطل ہی رہی۔

سرینگر مظفر آاباد روڑ پر بس سروس کی کامیابی کے بعد 2008 میں ساز و سامان کی نقل و حرکت کی بھی اجازت دی گئی جسے کراس ایل او سی ٹریڈ کہا جاتا تھا۔

رواں برس کے اوائل میں حکومت ہند نے اس تجارت کو بند کردیا۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس تجارت کو منشیات، غیر قانونی کرنسی اور ہتھیار اسمگل کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا تھا۔

مرکزی حکومت نے 5 اگست کو جموں وکشمیر کی دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں لداخ اور جموں وکشمیر میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

کاروان امن بس خدمات 1947 میں ملک کی تقسیم کے دوران الگ ہوئے اہل خانہ کو ملانے کے لیے 2005 میں شروع کی گئی تھی۔

سرینگر اور مظفرآباد کے درمیان پہلی کاروان امن بس کو سات اپریل 2005 کو ہری جھنڈی دکھائی گئی تھی۔

' کاروان امن بس' خدمات تاریخ بن گئی
' کاروان امن بس' خدمات تاریخ بن گئی

یہ بس خدمات شروع کئے جانے کے وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ منقسم کشمیر کے ان باشندوں کو اس بس میں سفر کرنے کی اجازت دی جائے گی جنکے رشتہ دار لائن آف کنٹرول کے دونوں حصوں میں رہ رہے ہوں۔ دونوں اطراف کی حکومتیں، سفر کرنے والے لوگوں کے کوائف کی تصدیق کرنے کی مجاز ہونگی۔ اس بس سے سفر کرنے والے مسافروں کو پاسپورٹ کی جگہ ’سفرپرمٹ‘ دیا جاتا تھا۔ یہ فیصلہ بھی لیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے منظوری ملنے کےبعد ہی سفر کی اجازت دی جائے گی۔

اس سفر کی شروعات کو تقسیم برصغیر کے بعد کشمیر میں اٹھایا جانیوالا سب سے بڑا خیر سگالی قدم مانا جاتا تھا۔ ابتدا میں اسکی اقدام کی خوب پزیرائی ہوئی اور منقسم خاندانوں کے سینکڑوں افراد نے اس بس کے ذریعے سفر کیا۔

لیکن کئی شدت پسند تنظیمیں اس اقدام کی مخالف تھیں۔ بس شروع ہونے سے ایک روز قبل سرینگر میں ایک فدائین حملہ کیا تھا جس کا مقصد اس کوشش کو ناکام بنانا تھا۔ علیحدگی پسند حریت کانفرنس کے لیڈر بھی بس کی شروعات کے معاملے میں آپسی اختلافات کا شکار رہے۔ سید علی گیلانی کی قیادت والے حریت کانفرنس دھڑے نے اس مشن کی مخالفت کی جبکہ میرواعظ عمر فاروق کے گروپ نے نہ صرف اسکی حمایت کی بلکہ بس میں سوار ہوکے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا طویل سفر بھی کیا۔

گزشتہ 24 برسوں کے دوران بس خدمات کئی مواقع پر معطل رہی۔ تودہ گرنے کی وجہ سے،برف باری جیسے قدرتی آفات، کچھ سیاسی وجوہ اور اوڑی سیکٹر میں امن سیتو کی مرمت کے کاموں کی وجہ سے اور کچھ دیگر وجوہات سے بس خدمات معطل رہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان آخری مرتبہ یہ بس 25 فروری کو چلی تھی۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں امن سیتو کی مرمت کی وجہ سے بس خدمات معطل رہنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ بعد میں پاکستان کی جانب سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے اور بس خدمات معطل ہی رہی۔

سرینگر مظفر آاباد روڑ پر بس سروس کی کامیابی کے بعد 2008 میں ساز و سامان کی نقل و حرکت کی بھی اجازت دی گئی جسے کراس ایل او سی ٹریڈ کہا جاتا تھا۔

رواں برس کے اوائل میں حکومت ہند نے اس تجارت کو بند کردیا۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس تجارت کو منشیات، غیر قانونی کرنسی اور ہتھیار اسمگل کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا تھا۔

Intro:Body:

Karwan-e-Aman bus service between Srinagar and Muzaffarabad suspended


Conclusion:
Last Updated : Oct 29, 2019, 8:24 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.