تمام دکانیں، تجارتی اور کاروباری مراکز بند ہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی آمد و رفت بھی ٹھپ پڑی ہوئی ہے۔
ٹرانسپورٹ انڈسٹری سے وابستہ لاکھوں لوگ سخت مشکلات سے دو چار ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق وادی میں تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار افراد ٹرانسپورٹ انڈسٹری سے جڑے ہوئے ہیں جن میں سومو، آٹو ڈرائیور، مسافر بسوں کے ڈرائیور اور کنڈکٹر وغیرہ شامل ہیں جو موجودہ حالات کے سبب سخت پریشان ہیں۔
اکثر ٹرانسپورٹرز نے بینکوں سے لون پر گاڑیاں خریدی ہیں لیکن اس غیر یقینی صورتحال سے لوگوں کا روزگار مکمل طور پر متاثر ہو چکا ہے اور یہ لوگ بینکوں کا قرض بھی ادا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
وہیں دوسری جانب وادی کشمیر میں اکثر و بیشتر ٹرانسپورٹرز سیاحتی شعبے سے بھی وابستہ ہیں جو سیاحتی سیزن میں اپنا اچھا خاصا روزگار کماتے ہیں اور اس سے انہیں اچھی خاصی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔
تاہم سرکار کی جانب سے سیاحوں کے لیے جاری ایڈوائزری کے بعد سے ہی یہاں کے تمام ہوٹل، ہاؤس بوٹ اور خوبصورت مقامات ویران پڑے ہیں۔ ان حالات میں سیاحتی شعبے سے جڑے ٹرانسپورٹر حضرات اپنے روزگار کے تعلق سے فکر مند نظر آ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پانچ اگست کو مرکزی حکومت نے ریاست جموں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت دفعہ 370کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا۔
4 اور 5 اگست کی درمیانی شب سے آج تک وادی کشمیر میں انتظامیہ کی جانب سے قدغنوں اور بندشوں سے معمولات زندگی مکمل طور مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔