تعلیمی اداروں کی رونق طلبا سے ہی ہوتی ہے لیکن وادی کشمیر کے طلبا گذشتہ 40 روز سے مسلسل اپنے گھروں میں قید ہیں۔ وادی میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اور نجی اسکولز اور کالجز جبکہ تین یونیورسٹیز بھی موجود ہیں۔ وہیں نجی کوچنگ مراکز کی تعداد کم نہیں ہے۔
اگرچہ انتظامیہ نے کئی بار کہا وادیٔ کشمیر میں پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولز کو کھولنے کا اعلان کیا لیکن اسکولوں میں پوری طرح ویرانی چھائی ہیں۔ وادی کے بیشتر اسکولوں پر تالے لگے رہے اور وہاں پوری طرح ویرانی چھائی، طلبا اسکول نہیں آئے۔
ادھر جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی جانب سےکہا گیا کہ سالانہ امتحانات حسب روایت نومبر - دسمبر میں ہوں گے۔ دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ گذشتہ ایک ماہ سے مختلف امتحانات ملتوی کرنے کا اعلان کرتی آرہی ہیں اور نئی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا، کہہ کر طلبا کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔
وادیٔ میں 5 اگست سے موبائل فون اور انٹرنیٹ خدمات مکمل طور پر بند ہے جس کی وجہ سے بھی طلبا و طلبات انتظامیہ کی جانب سے امتحانات وقت پر منعقد کرنے یا نہ کرنے کی کوئی بھی علمیت رکھنے سے قاصر ہیں۔ اب ان تمام اعلانات اور کشمیر کی موجودہ صورتحال کے درمیان مختلف تعلیمی ادراروں میں زیر تعلیم طلبا علم پریشانی، تذبذب اور اضطراب میں مبتلا ہیں کہ آخر وہ کریں تو کریں کیا اور ان کی تعلیمی سرگرمیاں کب شروع ہوں گی اور وہ امتحانات کیسے دے پائیں گے؟