ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے وادی کے معروف صحافی بلال فرقانی کا کہنا تھا کہ "کسی بھی ملک یا ریاست کی بہبود چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینے سے ہوتا ہے تاہم اس بجٹ میں ایسا کچھ غور کرنے لائق نہیں ہے۔ عوام کو کافی امیدیں تھیں لیکن انہیں مایوسی ہی ہاتھ لگی۔"
اقتصادیت کے ماہر عجز ایوب کا ماننا ہے کہ "جموں و کشمیر میں نامساعد حالات کی وجہ سے کافی نقصان ہوا اور ہو بھی رہا ہے۔ بجٹ میں جس رقم کا اعلان کیا گیا ہے وہ کافی کم ہے۔ اب تو انتظامیہ کے بھی اپنے اخراجات ہیں کیوں کہ اب جموں و کشمیر ریاست نہیں بلکہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے۔"
سینیئر صحافی ریاض مسرور کا کہنا تھا کہ "مرکزی حکومت کو جموں و کشمیر کی موجودہ صورتِحال کو نظر میں رکھ کر بجٹ پیش کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں کشمیر میں مودی جی کا گجرات ماڈل نظر نہیں آرہا۔ 30,000 کروڑ تو صرف دستاویز بنانے میں لگتے ہیں۔ فلاح و بہبود کی اسکیمیں اور ترقی کے لیے اس میں کیا ہے؟"
وہیں کشمیر اکنامک الائنس کے نائب صدر عجز شردر نے بجٹ کے تعلق سے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "گزشتہ 6 ماہ سے وادی کے تاجر، باغ مالکان اور سیاحت سے وابستہ افراد کو کافی نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ اس بجٹ سے کافی اُمید تھی تاہم مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ واگذار کی گئی رقومات سے کچھ نہیں ہوگا۔"
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر عبدالمجید میر کا ماننا تھا کہ "ہمارے ہر شعبے سے وابستہ افراد کو کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کی اس بجٹ سے ہمارے نقصانات کی کافی حد تک بھرپائی ہو سکتی ہے۔ "