سرینگر کے مضافاتی علاقہ حیدرپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر جن کی تاریخی لالچوک میں دکان ہے، نے کہا کہ 7 ستمبر 2014ء کو آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
جہاں ستمبر 2014 ء کو آج ہی کے دن دریائے جہلم کی خوفناک موجوں نے کشمیر کے بیشتر علاقوں کو اپنی آغوش میں لے کر کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا وہیں آج دریائے جہلم کا پانی بالکل خاموش ہے اور ایسا لگتا نہیں کہ اس نے آج سے ٹھیک پانچ برس قبل ایک بڑا قہر برپا کیا ہو جس کے نتیجے میں درجنوں انسانی جانیں ضائع ہونے کے علاوہ تین لاکھ رہائشی مکانات، تجارتی ادارے اور دیگر ڈھانچے تباہ ہوگئے ہوں۔
سیلاب میں شدید متاثر ہونے والے راج باغ علاقہ کے ایک رہائشی نے کہا: 'جب میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے رہائشی مکانات کو گرتے ہوئے دیکھا تو مجھے پورا یقین ہوگیا تھا کہ یہ میری اور میرے کنبے کے اراکین کی زندگی کا آخری دن ہے۔ چار روز بعد مجھے اور میرے کنبے کو ایک رشتہ دار نے آکر بچالیا تھا'۔
راج باغ کی طرح سری نگر کے دوسرے درجنوں علاقوں میں لوگ اپنے ہی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے۔ سری نگر کا تجارتی مرکز 'تاریخی لال چوک' سمندر کا منظر پیش کررہا تھا۔
ریاستی حکومت کے مطابق سیلاب کے باعث کشمیر کو ایک لاکھ کروڑ روپے سے زائد کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ سیلاب سے 280 سے زائد جانیں زیاں ہوئی تھیں، 5642 دیہات متاثرہوئے تھے جن میں سے 800 دیہات کئی ہفتوں تک تک زیر آب رہے تھے جس کے نتیجے میں 12 لاکھ 50 ہزار کنبے متاثر ہوئے تھے۔
سیلاب سے 83 ہزار سے زائد پکے رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے جبکہ 96 ہزار پکے رہائشی مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ 21 ہزار سے زائد نیم پکے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے جبکہ 54 ہزار سے زائد نیم پکے مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔
تاہم ایک الگ رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلاب سے قریب تین لاکھ رہائشی مکانات، تجارتی اداروں اور دیگر ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
ایک ہندی اخبار 'دینک جاگرن' سے وابستہ فوٹو جرنلسٹ شفاعت صدیق جہانگیر چوک کے نزدیک تباہ کن سیلابی ریلوں کو اپنے کیمرے میں قید کرنے کے دوران بہہ گئے تھے جن کی لاش چار روز بعد دو کلو میٹر دور بتہ مالو میں برآمد کی گئی تھی۔
جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں سے باغبانی، زراعت، شہرۂ آفاق زعفران سمیت زندگی کا ہر ایک شعبہ بری طرح متاثر ہوا تھا وہیں تاریخی لال چوک اورسری نگر کے دیگر حصوں میں قائم بازاروں کی رونقیں ختم ہو کر رہ گئی تھیں۔