وادی میں جاری ہڑتال 5 اگست کو اس وقت شروع ہوئی جب مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقے بنانے کا اعلان کیا۔
وادی کے تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں معطل ہیں۔ جہاں نجی اسکولوں نے طلباء کو ویڈیو لیکچرس فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے وہیں سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء کے لئے ایسا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔
کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء کا تین سالہ انڈر گریجویٹ کورس اس قدر طول پکڑ رہا ہے کہ کئی طلباء کو محسوس ہورہا ہے کہ ان کا کورس پانچ برس گزر جانے کے بعد بھی مکمل ہونے والا نہیں ہے۔ انڈر گریجویٹ کورس میں زیر تعلیم طلباء نے یونیورسٹی حکام سے امتحانات جلد از جلد منعقد کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وادی کشمیر میں 5 اگست سے مواصلاتی نظام جزوی طور پر معطل ہے جس کے باعث سماج کے مختلف طبقوں سے وابستہ لوگوں خاص کر طلباء، صحافیوں اور تاجروں کو گوناں گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ وادی میں اگرچہ لینڈ لائن فون خدمات بحال کی جاچکی ہیں تاہم موبائل فون خدمات بدستور معطل ہیں۔
مواصلاتی نظام پر عائد پابندی کے باعث طلباء سخت ترین پریشانیوں سے دوچار ہیں۔ مواصلاتی نظام پر جاری پابندی سے طلباء داخلہ فارم جمع کرپا رہے ہیں نہ اسکالر شپ اسکیموں سے مستفید ہورہے ہیں۔
پیشہ ور افراد کی ایک بڑی تعداد جن کا کام کاج انٹرنیٹ پر منحصر ہے پہلے ہی کشمیر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ تاہم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وادی کے ہر ضلعے میں انٹرنیٹ کونٹر کھولے جائیں گے جہاں طلباء سکالرشپ اور دیگر آن لائن فارم جمع کریں گے۔
وادی میں گزشتہ زائد از ایک ماہ سے ریل خدمات بھی برابر معطل ہیں۔ ریلوے ذرائع کے مطابق وادی میں گزشتہ چار برسوں کے دوران ٹرین سروس کم وبیش ایک سال تک بند رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانچ اگست سے تاحال ریلوے کو کم سے کم ایک کروڑ روپئے کا نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریل خدمات سرکاری احکامات پر معطل رکھی گئی ہیں اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی بحال کی جائیں گی۔
انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کے کسی بھی علاقے میں کسی قسم کی پابندیاں نافذ نہیں ہیں تاہم حساس مقامات پر بناء بر احتیاط سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ حالات کو قابو میں رکھا جاسکے۔
انتظامیہ نے بجز بی جے پی کے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو نظر بند رکھا ہے۔ نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ علیحدگی پسند رہنما بھی خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ وادی میں جاری موجودہ ہڑتال کی کال کسی جماعت نے نہیں دی ہے۔