وادی میں آج 25 ویں روز بھی بندشوں اور قدغنوں کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے عام زندگی بری طرح سے متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔
وادی کشمیر میں پرائمری اور مڈل اسکولز کو کھولنے کے بعد انتظامیہ نے ہائی اسکولز کو کھولنے کا حکم دیا تھا لیکن تعلیمی ادارے ویران اور سنسان نظر آئے جہاں کوئی طالب علم نظر نہیں آیا لیکن ٹیچرز اور دیگر اسٹاف اسکولز میں موجود رہے۔
وہیں گورنر انتظامیہ نے 25 روز کے بعد جموں کے پانچ اضلاع ڈوڈہ، کشتواڑ، رامبن، راجوری اور پونچھ میں موبائل سروسز کو بحال کر دیا ہے جبکہ کشمیر میں اس سے قبل صرف لینڈ لائن خدمات کو چند علاقوں میں بحال کیا گیا۔
گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ 'کسی بھی ناخوشگوار واقعات سے بچنے کے لیے وادی بھر میں بندشوں کی ضرورت ہے۔'
اس سلسلے میں گورنر ستیہ پال ملک نے یہ بھی کہا کہ 'انٹرنیٹ اور فون کی خدمات سکیورٹی نقطہ نظر سے معطل کی گئی ہیں۔'
وادی کشمیر میں تعلیمی ادارے اور بیشتر بینک بند ہیں۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھولے گئے ہیں۔ تاہم ان میں معمول کا کام کاج ٹھپ ہے۔ وادی میں ریل خدمات بھی گذشتہ تین ہفتوں سے معطل ہیں۔
سرینگر اور وادی کے دیگر نو اضلاع میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا۔ تاہم سرینگر کے سول لائنز و بالائی شہر اور مختلف اضلاع کو سرینگر کے ساتھ جوڑنے والی سڑکوں پر اچھی خاصی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ آٹو رکھشا بھی سڑکوں پر چلنے لگے ہیں۔ پھل و سبزی فروشوں کو سڑکوں کے کنارے گاہکوں کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
سرینگر کے پائین شہر سے اگرچہ کرفیو ہٹا لیا گیا ہے تاہم مختلف نوعیت کی پابندیاں اور بھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی بدستور جاری رکھی گئی ہے۔ پائین شہر کی بیشتر سڑکوں کو لوگوں کی آمدورفت کے لئے کھول دیا گیا ہے
وادی میں 5 اگست کو اس وقت معمولات زندگی متاثر ہوئی جب مرکزی حکومت نے ریاست کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقے بنانے کا اعلان کیا۔
انتظامیہ نے کشمیر میں سبھی علیحدگی پسند رہنماؤں و کارکنوں کو قید یا نظر بند رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کو چھوڑ کر ریاست کے ہند نواز سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنے گھروں یا سرینگر کے شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع سنٹور ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ان سے کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پابندیوں میں نرمی لانے کا سلسلہ جاری ہے اور صورتحال میں مزید بہتری کے بعد مواصلاتی خدمات کی بحالی بھی شروع ہوگی۔