جاوید احمد ٹاک سنہ1997 میں اپنے آبائی علاقہ بجبہاڑہ میں فائرنگ کے ایک واقعہ میں زخمی ہو گئے تھے
ریڈھ کی ہڈی میں گولی لگنے کی وجہ سے وہ معذور ہوگیےجس کی وجہ سے وہ زندگی بھر کے لیے ویل چیئر پر آگیے۔
جاوید کے ساتھ جب یہ واقعہ پیش آیا ان دنوں وہ ڈگری کالج بایز کھنہ بل اننت ناگ میں بی ایس سی فایئنل ایئر کا طالب علم تھا۔
جوانی میں معذور ہونے کے بعد انہوں نے ساری امیدیں چھوڑ دی تھی.. انہیں صرف یہ غم ستا رہا تھا کہ وہ تا حیات اپنے اہل خانہ کے لیے بوجھ بن گیے ہیں ایسے میں وہ اپنے مستقبل کو لے کر کافی فکر مند تھے۔
آخر کار جاوید کو ایک دن یہ احساس ہوا کہ زندگی میں آگے بھڑنے کے لیے کسی بھی کمزوری کو رکاوٹ نہیں بننے دینا ہے اسی امید کے ساتھ انہوں نے کچھ کرنے کی ٹھان لی۔
جاوید نے پہلے اپنے تعلیم کو پھر سے شروع کرنے کو ترجیح دی۔
انہوں نے کشمیر یونیورسٹی میں سوشل ورک میں ماسٹرز ڈگری کے بعد ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔
تعلیم ختم کرنے کے بعد انہوں نے بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھانے کی پہل شروع کی۔
جاوید کا کہنا ہے کہ معذور ہونے کے بعد ان میں جسمانی طور ناخیز افراد کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو گیا..
جس کے بعد انہوں نے دیہاتی و دور دراز علاقوں کے اسکولوں میں جاکر معذور بچوں کی حالت کا جائزہ لیا۔
اسکولوں میں جسمانی طورپر معذور بچوں کی نا گفتہ بہ حالت کو دیکھ کر انہوں نے ایک نئی پہل شروع کی۔
سنہ 2008 میں ضلع اننت ناگ کے بجبہاڑہ عید گاہ میں زیبہ آپا انسٹی ٹیوٹ کے نام سے جسمانی طور معذور بچوں کے لیے ایک اسکول قائم کیا۔
اسکول میں اس وقت 10 بچوں کا اندراج ہوا تھا تاہم جاوید کی انتھک کوششوں کی وجہ سے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور آج مذکورہ اسکول میں سو 100 سے زیادہ بچے زیر تعلیم ہیں.اور اسکول میں آٹھویں جماعت تک پڑھایا جا رہا ہے. اس اسکول میں مفت تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ معزور بچوں کو ہر طرح کی سہولیت فراہم کی جاتی ہے.
جاوید نہ صرف اسکول بلکہ ہیومینٹی ویلفیئر آرگنائزیشن کے نام سے ایک این جی او بھی چلا رہے ہیں جس کے ذریعہ وہ جسمانی طور معذور افراد کی ہر ممکن مدد کے ساتھ ساتھ انہیں تربیت دے کر مختلف ہنر کے ذریعہ اپنا روزگار خود کمانے کے اہل بناتے ہیں۔ تاکہ وہ سماج میں عزت سے اپنی زندگی بسر کر سکیں اور ان میں بھکاری ہونے کا احساس پیدا نہ ہو.
جاوید سال بھر مختلف پروگراموں اور سیمناروں کے ذریعہ معذور افراد کے حقوق کی بازیابی اور ان کو درپیش مصائب و مشکلات کو اجاگر کرتے رہتے ہیں..انہوں گزشتہ روز 3 دسمبر کو معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر ضلع اننت کے ڈاک بنگلور میں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا تھا.جس دوران جاوید کی کو ششوں کو کافی سراہا گیا..
جاوید نے ہمت اور حوصلے سے اپنی کمزوری کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا نتیجتاً وہ معزور افراد کے لیے مشعل راہ بن گیے. یہی وجہ ہے کہ 29 نومبر 2015 میں من کی بات پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی جم کر تعریفیں کی۔
سماج میں معزور افراد کے تعیں بہترین خدمات کے عوض جاوید کو2004 میں قومی، 2007 میں ریاستی ایواڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔
جاوید کا کہنا ہے کہ نا مساعد حالات اور سرحدی کشیدگی کے دوران یہاں آیے روز معزور افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لہذا سرکار کو چاہیے کہ وہ معذور افراد کی باز آبادکاری کے لیے ایک پالیسی مرتب کریں جس کے تحت ہر ضلع میں ایسے افراد کے لیے ہر ضروری سہولیات خصوصی طورمیسر ہوں۔
واضح رہے کہ کشمیر میں ناخیز افراد کی تعداد 4 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے،کئی دہائیوں سے چلے آ رہے پُر آشوب واقعات سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔