بھارتی شہریت اور سفری دستاویزات حاصل کرنے کی خاطر متعدد بار احتجاجوں سے حکومتوں کی توجہ اپنی طرف مبزول بھی کروائی تاہم ان کے مطالبات کا ازالہ نہیں ہوسکا ہے۔کئی برس سے یہ خواتین اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں ۔
سابق عسکریت پسندوں سے شادی کر چکی ان خواتین کی تعداد 300سے زائد ہیں ۔ اِن میں سے بعض خواتین کی طلاق ہوگئی ہے اور کئی ذہنی مریضہ بھی بن چکی ہیں ۔وہیں 2 نے خودکشی کر لی ہے اوراب دیگر نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر اِنہیں سفری دستاویزات نہ دئیے گے تو یہ لائن آف کنٹرول کی طرف اپنے بال بچوں سمیت مارچ کریں گی۔ان خواتین کو اپنوں سے نہ ملنے کا غم اندر ہی اندر کھایا جارہا ہے۔گزشتہ کل طیبہ اُن خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے پیر کے روز سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر اپنے سفری حقوق کا مطالبہ کیا۔ اس دوران طیبہ نے اپنے درد بھرے لہجے میں کہا کہ اِنہیں چند برس قبل ٹیٹوال کا دورہ کرنے کے دوران اپنے بوڑھے ماں باپ کو دوربین سے دیکھنے کا موقع ملا۔
طیبہ اُس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اُس وقت میرا دل کرتا تھا کہ اُس تیز بہاو والے دریا میں کود جاؤ اور اپنے بوڑھے والدین کو ایک بار گلے لگا لوں۔
ان خواتین کا کہنا ہے پہلے انہیں بازآبادی کاری منصوبے کے تحت یہاں لایا گیا اور اب غیر قانونی مہاجر کہہ کر شہریت اور سفری حقوق دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔
سائرہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ غیر قانونی مہاجر ہیں تو انہیں سزا دی جائے اور پھر اپنے بال بچوں سمیت واپس گھر جانے دیا جائے۔
واضح رہے حال ہی میں جموں وکشمیرمیں منعقد کئے گئے ڈی ڈی سی انتخابات میں ان میں سے دو خواتین نے حصہ بھی لیا تاہم دنوں کے نتائج ابھی التواء میں ہی رکھے گئے ہیں۔