ETV Bharat / state

میاں قیوم معاملہ: کئی افراد پوچھ گچھ کے لیے طلب

جموں و کشمیر پولیس نے گزشتہ مہینے بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کے معاملے پر عدالت عالیہ کے فیصلے کے تعلق سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نکتہ چینی کرنے والے افراد کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

میاں قیوم معاملہ: کئی افراد پوچھ گچھ  کے لیے طلب
میاں قیوم معاملہ: کئی افراد پوچھ گچھ کے لیے طلب
author img

By

Published : Jun 10, 2020, 8:59 PM IST


عدالت عالیہ کے ایک وکیل بلال احمد بٹ جو اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں، نے ای ٹی وی کو بتایا کہ 'میاں قیوم صاحب کے معاملے پر عدالت عالیہ نے گزشتہ مہینے کی 28 تاریخ کو اپنا فیصلہ سنایا۔ میں نے اس فیصلے کے خلاف اپنے خیالات سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر شیئر کیا کیونکہ عدالت کا فیصلہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ عدالت میں کئی نکتوں پر غور ہی نہیں کیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ روز مجھے پولیس اسٹیشن سے فون آیا تھا اور وہ مجھ سے میرے سماجی رابطہ ویب سائٹ پر شییر کیے گئے پوسٹ کے تعلق سے پوچھ گچھ کرنا چاہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اس وقت زیر علاج ہوں اور تھانے میں حاضر نہیں ہو سکتا جس کے بعد انہوں نے بھی زیادہ دباؤ نہیں ڈالا۔'

انہوں نے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ یہاں سے صحتیاب ہونے کے بعد مجھے پولیس اسٹیشن جانا پڑے گا اور ان کے سوالات کے جواب دینے پڑیں گے۔'

عدالت کی توہین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'میں نے کوئی عدالت کی توہین نہیں کی ہے۔ میں نے صرف فیصلے کی نکتہ چینی کی ہے جس کا حق سب کو ہے اور کوئی بھی کر سکتا ہے۔ میں نے جو بھی سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر لکھا ہے میں ابھی بھی ان الفاظ پر قائم ہوں۔ آپ ایسے ہی کسی کو اپنی رائے ظاہر کرنے کے لئے گرفتار نہیں کر سکتے۔ میں وکیل ہوں اور قانون اچھی طرح سے جانتا ہوں۔'

شوپیان ضلع کورٹ کے ایک وکیل حبیل اقبال نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'انہیں پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا۔ اس دوران مجھ سے میرا موبائل فون چھین لیا گیا۔ میری ذاتی زندگی اور کیریئر کے علاوہ عدالت کے فیصلے کی نکتہ چینی کے حوالے سے کئی سوالات کیے گئے۔'

میاں قیوم معاملہ: کئی افراد پوچھ گچھ  کے لیے طلب
میاں قیوم معاملہ: کئی افراد پوچھ گچھ کے لیے طلب

اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'میں نے اُن سے کہا کہ میرا ردِعمل عدالت کے فیصلے پر تھا نہ ہی میرا مقصد عدالت کی توہین کرنا تھا۔ مجھ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ میں نے اس سلسلے میں صحافیوں سے بات کیوں کی۔ میں نے کچھ غیر قانونی بات نہیں کی جو بھی کہا عدالت عظمیٰ کے دیے گئے فیصلوں کی روشنی میں کہا تھا۔'



وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ چند روز قبل شکایت موصول ہونے کے بعد انہیں نامعلوم افراد کے خلاف معاملہ درج کرنا پڑا اور اب اسی ضمن میں کارروائی کی جا رہی ہے۔

ایک سینئیر پولیس افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'ہمیں باوثوق ذرائع سے شکایت موصول ہو رہی تھیں کہ چند افراد نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر عدالت عالیہ کی ڈویژن بینچ کے ایک فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر فیصلے پر نکتہ چینی صرف عدالت کی توہین کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ امن وامان کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عدالت کے ادارے میں عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا بھی ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ " ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے سرینگر کے شیئر کریں تھانے میں ایک معاملہ درج کیا گیا اور اس وقت اس سلسلے میں کاروائی جاری ہے۔ معاملہ انڈین پینل کوڈ کے دفعہ 153 اے اور 505 کے تحت دائر کیا گیا ہے۔"




واضح رہے کی میاں قیوم کے معاملے پر عدالت عالیہ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے پر کافی مبصرین نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فیصلے کو حقیقت سے دور قرار دیا تھا۔

عدالت نے فیصلے کے پیراگراف زیر نمبر37 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر میاں قیوم متعلقہ اتھارٹی کے سامنے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ان کے خیالات اور نظریہ بدل چکا ہے تو متعلقہ اتھارٹی اس ضمن میں کوئی فیصلہ لے سکتی ہے۔"


عدالت عالیہ کے ایک وکیل بلال احمد بٹ جو اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں، نے ای ٹی وی کو بتایا کہ 'میاں قیوم صاحب کے معاملے پر عدالت عالیہ نے گزشتہ مہینے کی 28 تاریخ کو اپنا فیصلہ سنایا۔ میں نے اس فیصلے کے خلاف اپنے خیالات سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر شیئر کیا کیونکہ عدالت کا فیصلہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ عدالت میں کئی نکتوں پر غور ہی نہیں کیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ روز مجھے پولیس اسٹیشن سے فون آیا تھا اور وہ مجھ سے میرے سماجی رابطہ ویب سائٹ پر شییر کیے گئے پوسٹ کے تعلق سے پوچھ گچھ کرنا چاہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اس وقت زیر علاج ہوں اور تھانے میں حاضر نہیں ہو سکتا جس کے بعد انہوں نے بھی زیادہ دباؤ نہیں ڈالا۔'

انہوں نے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ یہاں سے صحتیاب ہونے کے بعد مجھے پولیس اسٹیشن جانا پڑے گا اور ان کے سوالات کے جواب دینے پڑیں گے۔'

عدالت کی توہین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'میں نے کوئی عدالت کی توہین نہیں کی ہے۔ میں نے صرف فیصلے کی نکتہ چینی کی ہے جس کا حق سب کو ہے اور کوئی بھی کر سکتا ہے۔ میں نے جو بھی سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر لکھا ہے میں ابھی بھی ان الفاظ پر قائم ہوں۔ آپ ایسے ہی کسی کو اپنی رائے ظاہر کرنے کے لئے گرفتار نہیں کر سکتے۔ میں وکیل ہوں اور قانون اچھی طرح سے جانتا ہوں۔'

شوپیان ضلع کورٹ کے ایک وکیل حبیل اقبال نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'انہیں پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا۔ اس دوران مجھ سے میرا موبائل فون چھین لیا گیا۔ میری ذاتی زندگی اور کیریئر کے علاوہ عدالت کے فیصلے کی نکتہ چینی کے حوالے سے کئی سوالات کیے گئے۔'

میاں قیوم معاملہ: کئی افراد پوچھ گچھ  کے لیے طلب
میاں قیوم معاملہ: کئی افراد پوچھ گچھ کے لیے طلب

اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'میں نے اُن سے کہا کہ میرا ردِعمل عدالت کے فیصلے پر تھا نہ ہی میرا مقصد عدالت کی توہین کرنا تھا۔ مجھ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ میں نے اس سلسلے میں صحافیوں سے بات کیوں کی۔ میں نے کچھ غیر قانونی بات نہیں کی جو بھی کہا عدالت عظمیٰ کے دیے گئے فیصلوں کی روشنی میں کہا تھا۔'



وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ چند روز قبل شکایت موصول ہونے کے بعد انہیں نامعلوم افراد کے خلاف معاملہ درج کرنا پڑا اور اب اسی ضمن میں کارروائی کی جا رہی ہے۔

ایک سینئیر پولیس افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'ہمیں باوثوق ذرائع سے شکایت موصول ہو رہی تھیں کہ چند افراد نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر عدالت عالیہ کی ڈویژن بینچ کے ایک فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر فیصلے پر نکتہ چینی صرف عدالت کی توہین کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ امن وامان کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور عدالت کے ادارے میں عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا بھی ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ " ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے سرینگر کے شیئر کریں تھانے میں ایک معاملہ درج کیا گیا اور اس وقت اس سلسلے میں کاروائی جاری ہے۔ معاملہ انڈین پینل کوڈ کے دفعہ 153 اے اور 505 کے تحت دائر کیا گیا ہے۔"




واضح رہے کی میاں قیوم کے معاملے پر عدالت عالیہ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے پر کافی مبصرین نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فیصلے کو حقیقت سے دور قرار دیا تھا۔

عدالت نے فیصلے کے پیراگراف زیر نمبر37 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر میاں قیوم متعلقہ اتھارٹی کے سامنے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ان کے خیالات اور نظریہ بدل چکا ہے تو متعلقہ اتھارٹی اس ضمن میں کوئی فیصلہ لے سکتی ہے۔"

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.