عدالت عالیہ کے رجسٹرار جنرل سنجے دھر کی جانب سے جاری کیے گئے اشتہار کےمطابق جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ میں نان گیزیٹڈ ملازمین کی اسامیوں کو پُر کرنے کے لیے مقامی اخباروں میں دیے گئے اشتہار کو فوری طور سے کالعدم کیا گیا ہے۔
عدالت کی جانب سے آرڈر کو منسوخ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔ جموں صوبے کے ہندو اکثریتی اضلاع جہاں دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کی حمایت کی گئی تھی وہاں عدالت کے ان اشتہارات کے خلاف مسلسل احتجاج ہو رہے تھے۔
واضح رہے کہ ڈسمبر 26 کو جموں وکشمیر کی عدالت عالیہ میں خالی 33 نان گزیٹیڈ اسامیوں کے لیے ملک بھر کے باشندگان سے عرضیاں طلب کی گئی تھیں۔ ان اسامیوں میں سینیئر و جونئیر سٹونو گرافر، ٹائپسٹ، الکٹریشن اور ڈرائیوروں کی اسامیاں شامل تھیں۔
قابل ذکر ہے کہ خصوصی حیثیت کی منسوخی سے قبل صرف جموں وکشمیر کے پشتینی باشندگان کو ہی سرکاری نوکریوں کے لیے عرضیاں داخل کرنے کا حق حاصل تھا۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے وقت مرکزی سرکار نے دعویٰ کیا تھا کہ اس فیصلے سے جموں،کشمیر اور لداخ مکمل طور پر ملک میں ضم ہو جائیں گے جہاں صرف ایک آئین اور ایک ہی جھنڈا ہوگا۔ جس کے فوراً بعد ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ یہاں غیر مقامی باشندگان کو بسایا جائے گا اور مقامی باشندگان کے روز گار پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔
غور طلب بات یہ ہے کی ان خدشات کے باوجود جموں میں مقامی باشندگان کو سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کے لیے مسلسل احتجاج ہوئے۔ اور ایسے میں عدالت عالیہ کی جانب سے دیئے گئے اشتہارات سے بی جے پی مخالف جماعتیں سڑکوں پر اتر آئیں اور عدالت سے یہ اشتہارات واپس لینے کا مطالبہ کیاتھا۔
نیشنل پینتھرس پارٹی کے صدر ہرش ديو سنگھ نے ان اشتہارات پر اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے غیر مقامی افراد سے عرضیاں طلب کرنے کا فیصلہ ناقابل برداشت ہے کیوں یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی روزی پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔