واضح رہے کہ وادی کشمیر میں گذشتہ دنوں نامعلوم افراد نے تین غیر ریاستی پاشندوں کا قتل کر دیا ہے۔ ہلاک شدہ افراد میں غیر ریاستی مزدور، ٹرک ڈرائیور او ر سیب کے ایک کاروباری شامل ہیں جنکا تعلق بالترتیب چھتیس گڑھ، راجستھان اور پنجاب کی ریاستوں کے ساتھ تھا۔
گورنر ملک کا کہنا ہے کہ غیر مقامی باشندوں کی ہلاکت سخت تشویش کی بات ہے، بیرون ریاستوں سے آئے ہوئے غریب افراد روزگار کمانے کے لیے وادیٔ کشمیر آتے ہیں اور انہیں اس طرح مارا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وادیٔ کشمیر میں یہ سب پاکستان کی ہدایت پر ہو رہا ہے ۔ ’ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے اور ہم ان لوگوں کو معاف نہیں کریں گے۔'
یہ ہلاکتیں اس وقت رونما ہوئیں جب ریاستی انتظامیہ نے حالت میں بہتری کا دعویٰ کرتے ہوئے دو ماہ سے زائد عرصے تک بند رہنے والی پوسٹ پیڈ موبائل سروس بحال کی تھی۔
ستیہ پال ملک نے کہا کہ وادی میں اب پری پیڈ موبائل سروس دوبارہ شروع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے کیونکہ پاکستان اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں صورتحال میں بہتری کو دیکھ کر ہی انٹرنیٹ خدمات بحال کیا جائیں گی۔
ریاستی پولیس نے ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت کے واقعہ کے لیے عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ہلاکت کے اس واقعہ میں شدت پسند تنظیم جیش محمد اور حزب المجاہدین کے گروپ ملوث ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ وادی میں جاری نامساعد حالات کے باعث اگرچہ غیر ریاستی سیاح، طلاب و مختلف کاریگر وادی چھوڑ گئے ہیں لیکن اینٹ بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور یہاں ابھی برابر ٹھہرے ہوئے ہیں اور دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کام کے ساتھ مصروف ہیں۔
انتظامیہ نے اگرچہ یاتریوں اور سیاحوں کو یہاں سے نکالنے کے لیے انتظامات بھی کئے تھے اور انہیں مطلع بھی کیا تھا لیکن ان مزدوروں کا کسی نے حال دریافت کیا نہ کسی نے ان کو وادی سے نکلنے یا انہیں تحفظ بہم پہنچانے کا کوئی بندوبست کیا تھا۔