حالانکہ حکومت یا جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے فاروق عبداللہ کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لینے کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ رکن پارلیمان وائیکو کی عرضی پر چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس عبدالنذیر کی بینچ نے سماعت کی۔
عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سی جے آئی رنجن گوگوئی نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا وہ حراست میں ہیں؟ اس پر سالیسیٹر جنرل نے کہا کہ 'ہم حکومت سے ہدایت لیں گے۔'
وائیکو کے وکیل نے کورٹ سے کہا کہ فاروق عبداللہ باہر نہیں نکل سکتے، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔کورٹ نے وکیل سے کہا کہ اپنی آواز تیز نہ کریں۔
سپریم کورٹ نے وائیکو کی فاروق عبداللہ کو رہا کرنے کی عرضی پر مرکز کو نوٹس جاری کیا ہے۔ مرکزی حکومت نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ نوٹس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملے پر 30 ستمبر کو آئندہ سماعت ہوگی۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ گذشتہ ماہ وزیرداخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ فاروق عبداللہ کو نہ تو حراست میں رکھا گیا ہے اور نہ ہی انہیں نظربند کیا گیا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اپنے گھر میں ہیں۔
ان کے اس بیان کے دوسرے روز ہی فاروق عبداللہ نے اپنے گھر سے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کافی غضبناک انداز میں کہا تھا کہ 'وزیرداخلہ پارلیمنٹ میں جھوٹ بول رہے ہیں؟' انہوں نے کہا کہ ' میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔'