ETV Bharat / state

جموں و کمشیر کے واحد اولمپیئن کی کہانی ان کی زبانی!

author img

By

Published : Mar 10, 2020, 8:15 PM IST

سرمائی کھیلوں کا نام جب بھی لیا جاتا ہے تب جموں و کشمیر کے واحد اولمپیائی کھلاڑی گل مصطفیٰ دیو کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔

جموں و کمشیر کے واحد اولمپیئن کی کہانی ان کی زبانی!
جموں و کمشیر کے واحد اولمپیئن کی کہانی ان کی زبانی!

سرینگر شہر کے مہا راجا بازار کے رہنے والے گل مصطفیٰ دیو نے سنہ 1988 میں کینیڈا میں ہوئے سرمائی اولمپکس میں بھارت کی نمائندگی کی تھی۔ اس سے قبل 1984 میں اُنہوں نے جاپان میں کھیلے گئے ایشیائی سرمائی کھیلوں میں 5 پائیدان حاصل کیا تھا۔

جموں و کمشیر کے واحد اولمپیئن کی کہانی ان کی زبانی!

گل مصطفیٰ نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خاص گفتگو کے دوران اپنے اولمپک کے سفر اور وادی میں اسکینگ کے مستقبل پر تفصیلاً بات کی۔

گل مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ 'اُن کے والد حاجی حبیب اللہ دیو کشمیر کے مشہور فٹبال کھلاڑی تھے۔ اُن کی گول كیپنگ اتنی اچھی تھی کہ وقت کے مہا راجا ہری سنگھ نے ان کو حبیب پنز کا لقب دیا تھا۔ اس لیے میرے گھر والوں کا مجھے ہمیشہ ساتھ ملا۔ اگر میں اسکائر نہیں ہوتا تو انجینیئر ہوتا لیکن میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کی میں اولمپین بنا۔'

اولمپین کے سفر پر تفصیلاً بات کرتے ہوئے دیو کا کہنا تھا کہ 'سنہ 1985 میں گلمرگ قومی کھیلوں میں ایک سونے اور دو برونز میڈل حاصل کر کے میں نے ایشیائی سرمائی کھیلوں میں بھارت کی نمائندگی کرنے والی ٹیم میں جگہ بنائی جہاں مجھے پانچ پائیدان ملا۔ اس کے بعد سنہ 1988 میں اولیمکس کے لیے گلمرگ میں ہوئے ٹریلز میں میری بہترین اسکینگ کے مظاہرے کی بدولت مجھے بھارت کی طرف سے کینیڈا میں ہوئے سرمائی اولمپکس میں حصہ لینے کا موقع ملا۔'

اُن کا کہنا تھا کہ 'وادی میں ہنر کی کمی نہیں ہے۔ تاہم اگر بنیادی سہولت بہتر ہوتی تو نتیجے زیادہ بہتر ہوتے۔'

کشمیر میں اسکینگ کے مستقبل کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ 'آج کے بچوں میں اسکینگ کو لے کر ویسے دلچسپی نہیں ہے۔ ہمارے وقت میں گندولہ لفٹ نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہم خود راستہ بناتے ہوئے اُوپر جایا کرتے تھے۔ آج اگر میں کسی بچے کو بالوں کے ٹریک کر کے اوپر جانا ہے کہتا ہوں تو وہ بولتے ہیں کہ سر گنڈولہ میں چلتے ہیں۔'

اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'اولمپکس کے لیے اب منتخب ہونا تھوڑا مشکل ہے کیوںکہ اب کھلاڑیوں کو ٹرائلز کے علاوہ ایف سی پوائنٹس حاصل کرکے کے خود کو آگے لے جانا پڑتا ہے۔ اس میں محنت، مشقت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے جو اس وقت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔'

گل مصطفیٰ دیو کو سنہ 2015 میں کھیل کی جانب نمایاں کارکردگی پر ریاستی عزاز سے نوازا گیا۔

دیو جتنے زبردست اسکینگ کھلاڑی تھے۔ اتنے ہی بہترین استاد بھی ہیں۔ سنہ 1993 سے اب تک 12 ہزار لڑکے اور لڑکیوں کو تربیت فراہم کر چکے ہیں۔ اُن سے تربیت حاصل کرنے والے کئی کھلاڑیوں نے قومی اور بین الاقوامی کھیلوں میں جموں و کشمیر اور بھارت کا نام روشن کیا ہے۔

سرینگر شہر کے مہا راجا بازار کے رہنے والے گل مصطفیٰ دیو نے سنہ 1988 میں کینیڈا میں ہوئے سرمائی اولمپکس میں بھارت کی نمائندگی کی تھی۔ اس سے قبل 1984 میں اُنہوں نے جاپان میں کھیلے گئے ایشیائی سرمائی کھیلوں میں 5 پائیدان حاصل کیا تھا۔

جموں و کمشیر کے واحد اولمپیئن کی کہانی ان کی زبانی!

گل مصطفیٰ نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خاص گفتگو کے دوران اپنے اولمپک کے سفر اور وادی میں اسکینگ کے مستقبل پر تفصیلاً بات کی۔

گل مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ 'اُن کے والد حاجی حبیب اللہ دیو کشمیر کے مشہور فٹبال کھلاڑی تھے۔ اُن کی گول كیپنگ اتنی اچھی تھی کہ وقت کے مہا راجا ہری سنگھ نے ان کو حبیب پنز کا لقب دیا تھا۔ اس لیے میرے گھر والوں کا مجھے ہمیشہ ساتھ ملا۔ اگر میں اسکائر نہیں ہوتا تو انجینیئر ہوتا لیکن میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کی میں اولمپین بنا۔'

اولمپین کے سفر پر تفصیلاً بات کرتے ہوئے دیو کا کہنا تھا کہ 'سنہ 1985 میں گلمرگ قومی کھیلوں میں ایک سونے اور دو برونز میڈل حاصل کر کے میں نے ایشیائی سرمائی کھیلوں میں بھارت کی نمائندگی کرنے والی ٹیم میں جگہ بنائی جہاں مجھے پانچ پائیدان ملا۔ اس کے بعد سنہ 1988 میں اولیمکس کے لیے گلمرگ میں ہوئے ٹریلز میں میری بہترین اسکینگ کے مظاہرے کی بدولت مجھے بھارت کی طرف سے کینیڈا میں ہوئے سرمائی اولمپکس میں حصہ لینے کا موقع ملا۔'

اُن کا کہنا تھا کہ 'وادی میں ہنر کی کمی نہیں ہے۔ تاہم اگر بنیادی سہولت بہتر ہوتی تو نتیجے زیادہ بہتر ہوتے۔'

کشمیر میں اسکینگ کے مستقبل کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ 'آج کے بچوں میں اسکینگ کو لے کر ویسے دلچسپی نہیں ہے۔ ہمارے وقت میں گندولہ لفٹ نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہم خود راستہ بناتے ہوئے اُوپر جایا کرتے تھے۔ آج اگر میں کسی بچے کو بالوں کے ٹریک کر کے اوپر جانا ہے کہتا ہوں تو وہ بولتے ہیں کہ سر گنڈولہ میں چلتے ہیں۔'

اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'اولمپکس کے لیے اب منتخب ہونا تھوڑا مشکل ہے کیوںکہ اب کھلاڑیوں کو ٹرائلز کے علاوہ ایف سی پوائنٹس حاصل کرکے کے خود کو آگے لے جانا پڑتا ہے۔ اس میں محنت، مشقت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے جو اس وقت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔'

گل مصطفیٰ دیو کو سنہ 2015 میں کھیل کی جانب نمایاں کارکردگی پر ریاستی عزاز سے نوازا گیا۔

دیو جتنے زبردست اسکینگ کھلاڑی تھے۔ اتنے ہی بہترین استاد بھی ہیں۔ سنہ 1993 سے اب تک 12 ہزار لڑکے اور لڑکیوں کو تربیت فراہم کر چکے ہیں۔ اُن سے تربیت حاصل کرنے والے کئی کھلاڑیوں نے قومی اور بین الاقوامی کھیلوں میں جموں و کشمیر اور بھارت کا نام روشن کیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.