ETV Bharat / state

'کشمیر میں پیلٹ گن کا استعمال بند کیا جائے' - مظاہرین نے پتھراؤ کی

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 'بھارتی حکومت جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسز کو ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گن کے استعمال سے پرہیز کرنے کی تاکید کرے۔'

فائل فوٹو
فائل فوٹو
author img

By

Published : Sep 4, 2020, 1:42 PM IST

ہیومن رائٹس واچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 'پولیس اور نیم فوجی دستوں نے 29 اگست 2020 کو محرم کے موقع پر سرینگر میں شیعہ مسلمانوں کے ایک جلوس کے موقع پر شاٹ گنز کے ساتھ آنسو گیس کے گولے بھی داغے تھے جس سے درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔'

پولیس کے مطابق جلوس کے دوران کچھ مظاہرین نے پتھراؤ کیا جس سے 15 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔'

ہیومن رائٹس واچ کے جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ 'بار بار بھارت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے کشمیر میں شاٹ گنز کے استعمال کے نتیجے میں مظاہرین اور راہگیر زخمی ہوتے ہیں۔ بھارتی حکام کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ شاٹ گن کا استعمال بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پرشدد مظاہرے کے دوران ہمیشہ زیادہ چوٹ کا سبب بنے گا۔'

انہوں نے کہا کہ 'شاٹ گنز سے فائر کئے گئے پیلٹز سے اب تک ہزاروں افراد زخمی ہوگئے جس میں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہونا بھی شامل ہے۔ پیلٹ گن کا استعمال 2010 میں پرتشدد مظاہروں کے دوران کشمیر میں تقریباً 120 افراد کی ہلاکت کے بعد کیا گیا تھا۔

سکیورٹی فورسز عام طور پر 12 گیج پمپ ایکشن گنوں کا استعمال کرتی ہے جو درجنوں یا سینکڑوں چھوٹے چھوٹے پیلٹز سے بھری ہوتی ہیں جنہیں 'برڈ شاٹ' یا "ڈو شاٹ' کہا جاتا ہے۔

ہندوستانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ 'سکیورٹی فورسز پیلٹ گنز کا استعال ضرورت محسوس ہونے اور مظاہرین کے تشدد کے جواب میں کرتی ہے۔'

تاہم بین الاقوامی قانون پرتشدد مظاہرین کے خلاف، طاقت کے کسی بھی استعمال پر پابندی عائد کرتا ہے جس سے بلا امتیاز یا غیر ضروری نقصان ہوتا ہے۔

سکیورٹی فورسز کی جانب سے کشمیر میں شاٹ گنز کا استعمال ہلاکتوں اور زخمیوں کا بھی سبب ہے۔ اگرچہ شاٹ گن سے چلنے والے پیلٹز سے ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

تاہم وزارت برائے امور داخلہ نے فروری 2018 میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ' 2015 سے 2017 کے درمیان پیلٹز سے 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ڈاٹا جرنلزم کی ویب سائٹ انڈیا اسپینڈ کے مطابق جولائی 2016 اور فروری 2019 کے درمیان شاٹ گن سے فائر کیے گئے پیلٹ سے 139 افراد نابینا ہوگئے۔'

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ریاستی اسمبلی کو بتایا تھا کہ 'جولائی 2016 اور فروری 2017 کے درمیان 6221 افراد پیلٹ سے زخمی ہوئے تھے اور ان میں سے 782 افراد کو آنکھوں میں چوٹیں آئی تھیں۔'

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ 'شاٹ گن کا استعمال کشمیر میں استعمال کیے جانے والے خطرناک ہتھیاروں میں سے ایک ہے اور ہجوم پر قابو پانے کے لئے ان کے استعمال کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔'

سنہ 2017 میں جب پیلٹ کے استعمال پر پارلیمنٹ میں سوال کیا گیا تو وزارت داخلہ نے کہا کہ 'اس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے دیگر غیر مہلک متبادل کی تلاش کی ہے لیکن یہ کہ 'اگر یہ اقدامات مظاہرین کو منتشر کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہوئے تو پیلٹ گنز کا استعمال ہو سکتا ہے۔

سنہ 2016 کے دسمبر میں سپریم کورٹ نے کہا کہ 'ان ہتھیاروں کو کشمیر میں 'اندھا دھند یا بہت زیادہ' استعمال نہیں کیا جانا چاہئے اور حکام کو ان کا استعمال ضرورت کے وقت ہی کرنا چاہئے۔'

ہیومن رائٹس واچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 'پولیس اور نیم فوجی دستوں نے 29 اگست 2020 کو محرم کے موقع پر سرینگر میں شیعہ مسلمانوں کے ایک جلوس کے موقع پر شاٹ گنز کے ساتھ آنسو گیس کے گولے بھی داغے تھے جس سے درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔'

پولیس کے مطابق جلوس کے دوران کچھ مظاہرین نے پتھراؤ کیا جس سے 15 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔'

ہیومن رائٹس واچ کے جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ 'بار بار بھارت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے کشمیر میں شاٹ گنز کے استعمال کے نتیجے میں مظاہرین اور راہگیر زخمی ہوتے ہیں۔ بھارتی حکام کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ شاٹ گن کا استعمال بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پرشدد مظاہرے کے دوران ہمیشہ زیادہ چوٹ کا سبب بنے گا۔'

انہوں نے کہا کہ 'شاٹ گنز سے فائر کئے گئے پیلٹز سے اب تک ہزاروں افراد زخمی ہوگئے جس میں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہونا بھی شامل ہے۔ پیلٹ گن کا استعمال 2010 میں پرتشدد مظاہروں کے دوران کشمیر میں تقریباً 120 افراد کی ہلاکت کے بعد کیا گیا تھا۔

سکیورٹی فورسز عام طور پر 12 گیج پمپ ایکشن گنوں کا استعمال کرتی ہے جو درجنوں یا سینکڑوں چھوٹے چھوٹے پیلٹز سے بھری ہوتی ہیں جنہیں 'برڈ شاٹ' یا "ڈو شاٹ' کہا جاتا ہے۔

ہندوستانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ 'سکیورٹی فورسز پیلٹ گنز کا استعال ضرورت محسوس ہونے اور مظاہرین کے تشدد کے جواب میں کرتی ہے۔'

تاہم بین الاقوامی قانون پرتشدد مظاہرین کے خلاف، طاقت کے کسی بھی استعمال پر پابندی عائد کرتا ہے جس سے بلا امتیاز یا غیر ضروری نقصان ہوتا ہے۔

سکیورٹی فورسز کی جانب سے کشمیر میں شاٹ گنز کا استعمال ہلاکتوں اور زخمیوں کا بھی سبب ہے۔ اگرچہ شاٹ گن سے چلنے والے پیلٹز سے ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

تاہم وزارت برائے امور داخلہ نے فروری 2018 میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ' 2015 سے 2017 کے درمیان پیلٹز سے 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ڈاٹا جرنلزم کی ویب سائٹ انڈیا اسپینڈ کے مطابق جولائی 2016 اور فروری 2019 کے درمیان شاٹ گن سے فائر کیے گئے پیلٹ سے 139 افراد نابینا ہوگئے۔'

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ریاستی اسمبلی کو بتایا تھا کہ 'جولائی 2016 اور فروری 2017 کے درمیان 6221 افراد پیلٹ سے زخمی ہوئے تھے اور ان میں سے 782 افراد کو آنکھوں میں چوٹیں آئی تھیں۔'

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ 'شاٹ گن کا استعمال کشمیر میں استعمال کیے جانے والے خطرناک ہتھیاروں میں سے ایک ہے اور ہجوم پر قابو پانے کے لئے ان کے استعمال کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔'

سنہ 2017 میں جب پیلٹ کے استعمال پر پارلیمنٹ میں سوال کیا گیا تو وزارت داخلہ نے کہا کہ 'اس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے دیگر غیر مہلک متبادل کی تلاش کی ہے لیکن یہ کہ 'اگر یہ اقدامات مظاہرین کو منتشر کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہوئے تو پیلٹ گنز کا استعمال ہو سکتا ہے۔

سنہ 2016 کے دسمبر میں سپریم کورٹ نے کہا کہ 'ان ہتھیاروں کو کشمیر میں 'اندھا دھند یا بہت زیادہ' استعمال نہیں کیا جانا چاہئے اور حکام کو ان کا استعمال ضرورت کے وقت ہی کرنا چاہئے۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.