مرکزی حکومت کے زیرانتظام ریاست جموں و کشمیر میں گزشتہ روز ایک عوامی مفاد غازی پر سماعت کے دوران چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس پونیت گوپتا پر مبنی عدالت عالیہ کی ڈویژن بینچ نے انتظامیہ کے ردعمل پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری محکموں کی جانب سے معاملات کے دوران جو حکمت عملی اپنائی جارہی ہے وہ بہت افسوسناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کی ہدایت پر سختی سے عمل نہیں کیا جا رہا ہےتاہم بینچ کا ماننا تھا کہ سرکاری محکموں کی جانب سے عدالت میں زیر بحث معاملات کی سماعت کے دوران زاویہ ٹھیک نہیں ہے۔
سماعت کے دوران بحث بھی نہیں کرتے بلکہ صرف اگلی تاریخ طلب کرتے ہیں جس وجہ سے معاملات کے عارضی آرڈرز پاس کیے جاتے ہیں، جس کا مستقبل میں منفی اثرات مرتب ہوتا ہے۔
اپنے دعوے کو واضح کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ 'زمینی رنجش، ملازمین کے ٹرانسفر کے معاملات، بنیادی سہولیات کے حوالے سے دائر کی گئی عرضی پر سماعت ہوتی ہے، لیکن سرکاری محکموں کی جانب سے ان پر کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی جاتی'۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے تاریخ کے بعد تعریف کی جاتی ہے اور معاملہ کئی دہائیوں تک عدالت کے سامنے زیر بحث نہیں رہتا ہے، تاہم کچھ معاملات میں عارضی فیصلے بھی سنائے پڑھتے ہیں۔
بینچ کا مزید کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف عدالت کے سامنے زیر سماعت معاملات کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ عوام عوامی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے۔