اس اسکیم کے ذریعے کاشتکار براہ راست سرکار کو سیب بیچ سکتے ہیں اور انتظامیہ کے مطابق محض تین دنوں کے اندر کسانوں کے بینک اکائونٹز میں رقومات ڈالی جائیں گی۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے شمالی کشمیر کے سمبل سونا واری علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک سیب کاشتکار نے بتایا کہ ’سرکاری اسکیم کے تحت انہیں بہتر معاوضہ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے‘۔
ان کے مطابق سرکاری اسکیم کے تحت دیے جانے والے معاوضے سے کہیں زیادہ سیبوں پر پہلے ہی خرچ کیا جا چکا ہے، جس کی وجہ سے کسان اس اسکیم کے تحت سرکار کو میوہ فروخت کرنے سے کترا رہے ہیں۔
سمبل کے ہی ایک اور کاشتکار کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے باغات کی دواپاشی اور دیگر کاموں کے لیے پہلے ہی قرضہ لے رکھا ہے، جبکہ ان کے مطابق جن سے انہوں نے قرضہ لیا ہے انہیں وقت پر رقم لوٹانی ہے جس کے سبب انہیں اس وقت سیبوں کو جو بھی قیمت مل رہی ہے وہ اسی پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں'۔
کسانوں نے مزید کہا کہ ’پہلے ہی سیبوں کی درجہ بندی، پیکنگ اور روانگی میں کافی دیر ہو چکی ہے اور انہیں جلد سے جلد سیبوں کو منڈیوں تک روانہ کرنا ہے بصورت دیگر سیب خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔‘
وادی کشمیر کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تصور کی جانے والی میوہ صنعت خصوصاً سیب کی کاشت کا سیزن ان دنوں عروج پر ہے تاہم 5اگست کو دفعہ 370اور دفعہ 35اے کی منسوخی کے بعد پیدا شدہ نامساعد حالات اور غیر یقینیت کے درمیان کسانوں اور میوہ صنعت سے جڑے تاجرین کے لیے گورنر انتظامیہ نے MITSاسکیم کو متعارف کرایا۔