بیان میں پولیس نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ وادی کشمیر میں آزادی صحافت پر قدغن لگائی جارہی ہے۔
آئی جی پی کشمیر وجے کمار نے بیان میں کہا کہ اس طرح کی بیان جاری کرنے سے پہلے صحافتی انجمنوں کو حقائق کا پتہ لگانا چاہئے۔آئی جی پی کشمیر نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک صحافی سے اس کے کام کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی کیونکہ اننت ناگ پولیس تھانہ میں اس کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی کیونکہ ان کی خبر کی وجہ سے شوپیاں انکاؤنٹر کے دوران لوگوں کو تشدد کے لیے اکسانے کا خدشہ لاحق تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ دیگر دوافراد پر صحافت کے سلسلے میں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے بلکہ انہوں نے سوشل میڈیا پر واضح طور پر مواد شائع کیا ہے جو قابل اعتراض ہے اور اس سے لوگوں کو تشدد کے لیے اکسانے کی کوشش کی گئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے ان دو افراد میں سے ایک نے حالیہ دنوں کشمیر پریس کلب کے چند اراکین کے ساتھ آکر آئی جی پی کشمیر سے ملاقات کی دوران غلطی کا اعتراف بھی کیا اور اس سے آگے نہ دہرانے کی بھی یقین دہانی کی-
انکا کہنا تھا کہ پولیس اس معاملے میں شفافانہ تحقیقات کرے گی۔
آئی جی پی نے یہ بھی اعادہ کیا کہ جموں و کشمیر پولیس نے آزادی صحافت کے حوالے سے ہمیشہ احترام کیا ہے۔انہوں نے صحافتی انجمنوں سے کہا کہ وہ ایسے بیانات جاری کرنے سے قبل حقائق کا پتہ لگائے اور اس کے بعد ہی ایسے بیانات جاری کریں۔
قابل ذکر ہے کہ پولیس نے گزشتہ دنوں وادی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں گوہر گیلانی، مسرت زہرہ پر مقدمے درج کرکے انہیں سوشل میڈیا پر ملک کی سالمیت کے خلاف پوسٹس لکھے تھے، جبکہ 'دی ہندو' کے نمائندے پیرزادہ عاشق کی ایک جبر کے متعلق اننت ناگ میں مقدمہ درج کیا ہے۔ان معاملات پر کشمیر اور عالمی صحافتی انجمنوں نے مذمت کرکے پولیس کو ان صحافیوں کے خلاف دائر مقدمے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔