کانگریس کے رہنما ششی تھرور کو لکھے گئے خط میں نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے اپنی نظربندی کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ وہ 'مجرم' نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کے خاتمے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسم ہونے کے بعد سرینگر میں نظر بند لوک سبھا رکن فاروق عبداللہ کی طرف سے یہ پہلا خط ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ نے ہند نواز سیاسی جماعتوں کے سربراہان سمیت کئی رہنما کو 5 اگست سے قبل ہی نظر بند یا حراست میں لیا گیا ہے۔ ان رہنماؤں میں جموں و کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی شامل ہیں۔
عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ سب جیل میں قید ہیں اور انھیں شکایت ہے کہ وقت پر انہیں مکتوبات نہیں دئے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے سینئر رکن اور کسی سیاسی جماعت کے رہنما کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے کا یہ طریقہ نہیں تھا۔
فاروق عبداللہ نے 2 دسمبر 2019 کو لکھے اپنے خط میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ'ہم مجرم نہیں ہیں۔'
کانگریس کے کیرالہ کے رکن پارلیمان ششی تھرور نے جمعرات کی دیر شب فاروق عبداللہ کے ذریعہ تحریری طور پر لکھے گئے ایک خط کو ٹویٹ کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ ' پارلیمانی استحقاق' کے معاملے میں سرینگر کے رکن پارلیمان فاروق عبداللہ کو پارلیمنٹ میں جانے کی اجازت دی جائے۔
تھرور نے استدلال کیا کہ 'جمہوریت اور خودمختاری' کو برقرار رکھنے کے لیے پارلیمنٹ میں شرکت ضروری ہے ۔ انہوں نے اپوزیشن کی آوازوں کو دبانے کے لیے گرفتاری کا آلہ استعمال کرنے سے خبردار کیا ہے۔
ششی تھرور نے ٹویٹ میں لکھا : 'نظر بند فاروق صاحب کا خط۔ پارلیمنٹ کے استحکام کے معاملے کے طور پر اراکین پارلیمان کو اجلاس میں شرکت کی اجازت ہونی چاہئے۔ بصورت دیگر، گرفتاری کا آلہ اپوزیشن کی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت اور خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے پارلیمنٹ میں شرکت ضروری ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ خط عبداللہ کے رکن پارلیمان کی حیثیت سے سرکاری لیٹر ہیڈ پر لکھا گیا ہے اور اس رہنما کے نام اور عہدہ کے ساتھ سرکاری مہر ثبت کرتا ہے۔ اس میں عبد اللہ کے ایڈریس کا ذکر 'سب جیل 40 گوپکر روڈ، سرینگر' کے طور پر کیا گیا ہے۔
عبداللہ کا خط اس اعتراف کے ساتھ شروع ہوتا ہے کہ انہیں 21 اکتوبر کو ششی تھرور کا خط کافی تاخیر کے بعد موصول ہوا ہے۔ انہوں نے یہ شکایت جاری رکھی ہے کہ تھرور کا خط مجسٹریٹ نے انہیں پہنچایا تھا جو انہیں 42 دن بعد 2 دسمبر کو دیا گیا۔
بتادیں کہ متعدد اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو پارلیمنٹ میں شرکت کی اجازت دی جائے تاکہ وہ کشمیر کی صورتحال پر مباحثوں میں حصہ لے سکے۔ مرکزی حکومت نے تمام رہنماؤں کی مرحلہ وار رہائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔