ETV Bharat / state

پندرہ برس گزر گئے لیکن اسکول کی عمارت مرمت نہ ہو سکی!

پہاڑی علاقوں میں درجنوں کی تعداد میں ایسی عمارتیں موجود ہیں جہاں تیز آندھی اور برفباری کی وجہ سے اُن کے چھتیں اُڑ گئی ہیں

پندرہ برس گزر گئے لیکن اسکول کی عمارت مرمت نہ ہو سکی!
پندرہ برس گزر گئے لیکن اسکول کی عمارت مرمت نہ ہو سکی!
author img

By

Published : Sep 1, 2020, 1:45 PM IST

جموں و کشمیر کے پہاڑی ضلع ڈوڈہ میں سرکاری اسکولوں کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے اور پہاڑی علاقوں میں درجنوں کی تعداد میں ایسی عمارتیں موجود ہیں جہاں تیز آندھی اور برفباری کی وجہ سے اُن کے چھتیں اُڑ گئی ہیں۔

پندرہ برس گزر گئے لیکن اسکول کی عمارت مرمت نہ ہو سکی!

موجودہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شُدہ صورتحال سے پورے ملک میں تعلیمی اِداروں کو ہنوز بند رکھا گیا ہے ۔ایسے میں سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو مرمت کرنے و دیگر بنیادی سہولیات کو فراہم کرنے کے لیے انتظامیہ کے پاس بہتر موقع تھا۔لیکن انتظامیہ ایسا کرنے میں مکمل طور ناکام ہو چُکی ہے اور متعلقہ حکام بھی بنیادی سہولیت کی فراہمی پر کم توجہ دے رہا ہے۔

آندھی طوفان اور برفباری سے متاثر اسکولی عمارتوں میں سے ایک عمارت تعلیمی زون بھاگواہ کے تحت آنے والا لور ہائی اسکول منجمی کی بھی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق سال 2005 میں جب ضلع ڈوڈہ کے شہر و گام میں بھاری برفباری ہوئی تھی تو منجمی جہاں ہر سال چار سے پانچ فِٹ برفباری ہوتی ہے اُس برس کئی فِٹ زیادہ برفباری سے اسکول کی چھٹ مکمل طور تباہ ہو گئی تھی ۔

مقامی لوگوں کے مطابق لور ہائی اسکول منجمی میں آج دس جماعتوں کا درس و تدریس کا عمل صرف دو کمروں میں چلتا ہے اور ایک کمرے میں اسکول کا آفس اور اسٹور رکھا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پندرہ برس گزر جانے کے بعد بھی محکمہ تعلیم ٹس سے مس نہیں ہوئی اور عوام کی طرف سے متعدد بار اسکول کی مرمت کی مانگ کو یکسر نظر انداز کیا گیا ۔

پنچائت منجمی کے سرپنچ عبدالطیف نیائیک نے بتایا کہ آج سے پندرہ برس قبل مذکورہ اسکول میں بچّوں کے بیٹھنے کے لئے معقول انتظامات تھے لیکن بھاری برفباری نے 2005 میں اسکول کی چھت کو ہی تباہ کر دیا ۔تب سے یہ عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ہے اسکول تو نام کا چلتا ہے لیکن زیر تعلیم بچّوں کو تپتی ہوئی دھوپ اور سردیوں میں خون کو منجمند کرنے والی ٹھنڈ سے شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے اُنہوں نے اعلیٰ حکام تک بات کو پہنچایا اور اپیل کی کہ عوامی مفاد میں اسکول کی مرمت کی جائے لیکن کہیں بھی اُن کی شنوائی نہیں ہوئی۔ مختلف حکومتوں نے بھی اِس جانب کوئی توجہ نہیں دی اور ارباب اقتدار میں بیٹھے مقامی نمائندوں نے اپنے ہی علاقے کے لوگوں کی مانگ کو نظر انداز کر دیا ۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ اسکول میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے جس وجہ سے وہ اپنے بچّوں کا مستقبل خطرے میں دیکھ رہے ہیں ۔دو کمرے دس کلاسسز کے لیے آرام کرنے کے لئے تو ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن درس و تدریس کے لئے یہ سب بیکارہے اس سے بچّوں کی تعلیم شدید متاثر ہو رہی ہے ۔

سرپنچ نے بتایا کہ وہ نا امید ہو گئے ہیں اور صرف ریاستی لفٹینٹ گورنر منوج سنہا سے امید رکھتے ہیں کہ وہ غریب عوام کی مشکلات کا ازالہ کریں۔

جموں و کشمیر کے پہاڑی ضلع ڈوڈہ میں سرکاری اسکولوں کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے اور پہاڑی علاقوں میں درجنوں کی تعداد میں ایسی عمارتیں موجود ہیں جہاں تیز آندھی اور برفباری کی وجہ سے اُن کے چھتیں اُڑ گئی ہیں۔

پندرہ برس گزر گئے لیکن اسکول کی عمارت مرمت نہ ہو سکی!

موجودہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شُدہ صورتحال سے پورے ملک میں تعلیمی اِداروں کو ہنوز بند رکھا گیا ہے ۔ایسے میں سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو مرمت کرنے و دیگر بنیادی سہولیات کو فراہم کرنے کے لیے انتظامیہ کے پاس بہتر موقع تھا۔لیکن انتظامیہ ایسا کرنے میں مکمل طور ناکام ہو چُکی ہے اور متعلقہ حکام بھی بنیادی سہولیت کی فراہمی پر کم توجہ دے رہا ہے۔

آندھی طوفان اور برفباری سے متاثر اسکولی عمارتوں میں سے ایک عمارت تعلیمی زون بھاگواہ کے تحت آنے والا لور ہائی اسکول منجمی کی بھی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق سال 2005 میں جب ضلع ڈوڈہ کے شہر و گام میں بھاری برفباری ہوئی تھی تو منجمی جہاں ہر سال چار سے پانچ فِٹ برفباری ہوتی ہے اُس برس کئی فِٹ زیادہ برفباری سے اسکول کی چھٹ مکمل طور تباہ ہو گئی تھی ۔

مقامی لوگوں کے مطابق لور ہائی اسکول منجمی میں آج دس جماعتوں کا درس و تدریس کا عمل صرف دو کمروں میں چلتا ہے اور ایک کمرے میں اسکول کا آفس اور اسٹور رکھا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پندرہ برس گزر جانے کے بعد بھی محکمہ تعلیم ٹس سے مس نہیں ہوئی اور عوام کی طرف سے متعدد بار اسکول کی مرمت کی مانگ کو یکسر نظر انداز کیا گیا ۔

پنچائت منجمی کے سرپنچ عبدالطیف نیائیک نے بتایا کہ آج سے پندرہ برس قبل مذکورہ اسکول میں بچّوں کے بیٹھنے کے لئے معقول انتظامات تھے لیکن بھاری برفباری نے 2005 میں اسکول کی چھت کو ہی تباہ کر دیا ۔تب سے یہ عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ہے اسکول تو نام کا چلتا ہے لیکن زیر تعلیم بچّوں کو تپتی ہوئی دھوپ اور سردیوں میں خون کو منجمند کرنے والی ٹھنڈ سے شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے اُنہوں نے اعلیٰ حکام تک بات کو پہنچایا اور اپیل کی کہ عوامی مفاد میں اسکول کی مرمت کی جائے لیکن کہیں بھی اُن کی شنوائی نہیں ہوئی۔ مختلف حکومتوں نے بھی اِس جانب کوئی توجہ نہیں دی اور ارباب اقتدار میں بیٹھے مقامی نمائندوں نے اپنے ہی علاقے کے لوگوں کی مانگ کو نظر انداز کر دیا ۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ اسکول میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے جس وجہ سے وہ اپنے بچّوں کا مستقبل خطرے میں دیکھ رہے ہیں ۔دو کمرے دس کلاسسز کے لیے آرام کرنے کے لئے تو ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن درس و تدریس کے لئے یہ سب بیکارہے اس سے بچّوں کی تعلیم شدید متاثر ہو رہی ہے ۔

سرپنچ نے بتایا کہ وہ نا امید ہو گئے ہیں اور صرف ریاستی لفٹینٹ گورنر منوج سنہا سے امید رکھتے ہیں کہ وہ غریب عوام کی مشکلات کا ازالہ کریں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.