حال ہی میں لل دید ہسپتال میں ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹروں کی مبینہ لاپروائی کی وجہ سے دو نوزائیدہ بچوں کی موت کا ایک اور معاملہ سامنے آیا۔ اس حوالے سے ریاست کے خواتین اور بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے کمیشن نے لل دید ہسپتال میں ڈاکٹروں کی مبینہ لاپرواہی کی وجہ سے دو نوزائیدہ بچوں کی موت پر سخت نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
گذشتہ ماہ کی 29 تاریخ کو رات دیر گئے ایک واقعہ پیش آیا۔ عابد صوفی نامی ایک صحافی نے اپنے دو نوزائیدہ بچے کی موت اور لل دید ہسپتال کے ڈاکٹروں کی مبینہ لاپرواہی کے معاملے کو ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک تک پہنچایا تھا۔ انہوں نے گورنر کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے دو نوزائیدہ بچوں کی موت کی وجہ کو تفیصلی طور پر بیان کیا تھا اور اپنے بچوں کی موت کا ذمہ دار لل دید ہسپتال کے ڈاکٹروں کی مبینہ لاپرواہی کو قرار دیا تھا۔ انہوں نے ان ڈاکٹروں پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے معاملے کی جانچ کرنے کی اپیل کی تھی۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ عابد صوفی نے کہا کہ ان کی چھہ ماہ کی حاملہ بیوی کو اچانک درد شروع ہوا جوں ہی وہ ہسپتال میں داخل ہوئے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے انہیں آناًفاناً میں بغیر کسی جانچ کہ کہا کہ دونوں بچوں کی موت پہلی ہی ہو چکی ہے۔جو کہ سراسرا غلط تھا۔
ان کی اہلیہ نے بار بار ڈاکٹروں سے کہا کہ انہیں پیٹ میں بچوں کی حرکت محسوس ہورہی ہے تاہم ڈاکٹروں نے حاملہ کو تھپڑ رسید کرتے ہوئے خاموش کرا دیا اور کہا کہ اگر اس ہسپتال میں علاج کرانا ہے تو کرائیں ورنہ باہر جائیں۔ حاملہ خاتوں کے خاوند نے کہا کہ زچگی کے بعد دونوں نوزائیدہ بچے واقعی زندہ تھے ۔
ان کی موت 2سے 3 گھنٹے زندہ رہنے کے بعد ہوئی۔ عابد صوفی نے کہا کہ ان کے بچے واپس تو نہیں آئیں گے تاہم اب لل دید ہسپتال میں آنے والے اس طرح کے مریضوں یا نوزائیدہ بچوں کے ساتھ ایسا انسانیت سوز واقع مستقبل میں پیش نہیں آنا چاہیے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اس واقعے کے حوالے سے لل دید ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے بات کرنا چاہی تاہم انہوں نے کمیرے کے سامنے بات کرنے سے انکار کیا۔