اس طرح طلباء کا اسکولوں سے دور رہنے سے ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انکے نفسیات پر بھی کافی مضر اثرات مرتب ہو رے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے اسکولی بچوں کا کہنا تھا کہ کئی ماہ سے انہوں نے اسکول کو دیکھا تک نہیں ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے قیمتی وقت کا ضیاں ہوتا ہے بلکہ اپنے دوستوں و ہم درس بچوں کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہے۔
مرتضیٰ علی نامی ایک پانچویں جماعت کے طالب علم کا ماننا ہے کہ ان کے اسکولی دوست ان کو یاد کرتے ہونگے اور وہ بھی اپنے اساتذہ و دوستوں کو یاد کرتے ہیں لیکن وادی میں جاری نا مساعد حالات کی وجہ سے طلبا اپنے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ پچھلےکئی روز سے وادی کے مختلف علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں دھیرے دھیرے بحال ہونی شروع ہوگئی ہیں تاہم مجموعی طور پر اسکولوں میں بچوں کی حاضری بہت حد تک کم ہے۔ عموماً چھوٹے بچے جنہیں اسکولوں میں موجود ہونا چاہئے ان دنوں مختلف کھیل کود کی سرگرمیوں میں اپنے آپ کومصروف رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بات دلچسپ ہےکہ وادی کے یہ چھوٹے و معصوم بچے نہ تو ’’ریاست‘‘ اور نہ ہی ’’یونین ٹیری ٹری‘‘ کے علم اور سیاست سے واقف ہیں اور نا ہی دیگر آئینی دفعات سے آشنا ہیں بلکہ وہ امید ظاہر کرہے ہیں کہ ان کے اسکولوں میں نظام تعلیم اچھے سے بحال ہو جائے اور وہ بھی ہنسی خوشی اسکول جاسکیں۔