ملک گیر لاک ڈاؤن کے پیش نظر سیب کاشتکاروں کو مال فروخت کرنے کے لیے مارکیٹس دستیاب نہیں ہیں جس کے نتیجے میں زائد 30 لاکھ سیب ڈبے کولڈ اسٹوریج میں پڑے ہوئے ہیں۔
سیب ڈبوں کو کولڈ سٹوریج میں رکھنے کے لئے سیب کاشتکاروں کو ماہانہ فی ڈبہ 35 روپے اور 100 روپے گریڈنگ کے لئے ادا کرنا پڑتے ہیں تاکہ مال خراب نہ ہوجائے۔
سابق سینئر صحافی و معروف مصنفہ نعیمہ مہجور کشمیری سیب صنعت کے تحفظ کے لئے کشمیری سیب خریدنے کی لوگوں کو اپیل کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہتی ہیں: 'پیارے کشمیریوں، کشمیر کی سیب صنعت، جس کو دانستہ طور پر تباہ کیا گیا ہے، کے تحفظ کے لئے کشمیری سیب خریدیں۔ بمہربانی اس کو ٹرنڈ کریں، میرے تمام فالوورس سے گذارش ہے کہ یہ پیغام عام کرکے سیب کاشتکاروں کی مدد کریں'۔
وادی کے سینئر صحافی عنایت جہانگیر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہتے ہیں: 'کیا آپ یقین کریں گے کہ آج سو روپے فی کلو کشمیری سیب چالیس روپے فی کلو تربوزہ سے سستا ہے؟ جانتا ہوں کہ یہ بات ہضم ہونا مشکل ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ رواں رمضان کے دوران مقامی سیب خرید کر مقامی سیب کاشتکاروں کی حمایت کریں'۔
تنویر احمد قریشی نامی ایک شہری کا اپنے ایک ٹوئٹ میں کہنا ہے: 'میں نے پانچ کلو کشمیری سیبوں کی ہوم ڈیلیوری کے لئے ساڑھے چھ سو روپے ادا کردیے۔ جب ہم گوشت فی کلو چھ سو روپے میں خرید سکتے ہیں تو سیب کاشتکاروں کی مدد کے لئے کیوں نہ یہ سیب مہینے میں ایک بار خرید سکتے ہیں'۔
آصف ڈار نامی ایک ٹوئٹر صارف اپنے ایک ٹویٹ میں کہتا ہے: 'بمہربانی سیب خریدیں یہ وقت کی ضرورت ہے۔ کہاوت ہے دن میں ایک سیب کھانے سے بیماری کو دور رکھا جاسکتا ہے لیکن کشمیر میں اس سے غریبی سے دور رہا جاسکتا ہے'۔
میر اشرف نامی ایک صارف نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا: 'رمضان کے دوران کشمیر میں روزانہ قریب پونے تین کروڑ کے تربوزے کھایے جاتے ہیں جبکہ بمشکل ہی کوئی سیب خریدتا ہے۔ کیوں نہ ہم رواں رمضان کے دوران اپنے کاشتکاروں کے ساتھ کھڑے رہیں اور دوسرے پھلوں کے بجائے سیب خریدیں تاکہ ہماری یہ مقامی معیشت تباہ ہونے سے بچائی جاسکے'۔
قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں سیبوں ک سالانہ پیداوار 22 میٹرک ٹن ہے جو ملک کی کل پیداوار کا زائد از 70 فیصد حصہ ہے۔