فیاض احمد میر نے کہا کہ ' اس ملک میں جمہوریت ہے لیکن اگر آپ کچھ کہتے ہیں تو وہ آپ پر پی ایس اے وائرس لگاتے ہیں۔ چین میں کورونا وائرس ہے اور کشمیر میں پی ایس اے وائرس ہے۔ اسی وجہ سے لوگ مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ ان کو پی ایس اے کے تحت حراست میں لے لیا جائے گا۔'
انہوں نے کہا کہ ' یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے ایک رکن ہونے کے باوجود میں پی ایس اے سے ڈرتا ہوں۔ کون جانتا ہے کہ پولیس کب آسکتی ہے اور مجھے گرفتار کرلیتی ہے۔'
جموں وکشمیر میں مارچ مہینے میں ہونے والے پنچایت انتخابات کے مرکز کے اعلان پر میر نے خطے میں خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لیے مزید سوالات اٹھائے۔ حکومت اس موضوع پر لوگوں کو الجھا رہی ہے۔ گذشتہ سال وہ دعویٰ کر رہے تھے کہ انہوں نے بلدیاتی اور پنچایت انتخابات کروائے ہیں۔ انہوں نے ووٹنگ کی فیصد کے بارے میں دعوے کیے تھے پھر یہ آسامیاں کیسے پیدا ہوئیں؟
انہوں نے الزام لگایا کہ ' عام طور پر ہر پانچ سال میں ایک بار انتخابات ہوتے ہیں۔ لیکن کشمیر میں وہ ہر تین ماہ میں ہو رہے ہیں ، اس سے کشمیر کی حالت کا پتہ چلتا ہے۔ حکومت نے خود ہی یہ ثابت کیا ہے کہ گذشتہ سال ہونے والے انتخابات میں کسی نے حصہ نہیں لیا تھا۔'
میر نے یہ بھی کہا کہ' غیر ملکی سفیروں کے وفد کا دورہ ایک طرح کا 'سفارتی سیاحت' تھا جو مرکزی حکومت کی جانب سے کرایا گیا اور مزید کہا ہے کہ اس سے کشمیری لوگوں کی حالت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔'