ETV Bharat / state

کیا بی جے پی کی تین ریاستوں میں کامیابی کے بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ممکن ہیں؟

جموں و کشمیر کی اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے تین ریاستوں میں جیت کے بعد قیاس لگا رہی ہیں کہ کیا جیت کے بعد حوصلے سے پرامید، مرکز کی بی جے پی حکومت جموں و کشمیر میں بھی اسمبلی انتخابات کرائے گی۔

کیا بی جے پی کی تین ریاستوں میں کامیابی کے بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ممکن ہیں؟
کیا بی جے پی کی تین ریاستوں میں کامیابی کے بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ممکن ہیں؟
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 4, 2023, 5:30 PM IST

کیا بی جے پی کی تین ریاستوں میں کامیابی کے بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ممکن ہیں؟

جموں و کشمیر: بھارتیہ جنتا پارٹی کی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیش گڑھ میں اسمبلی انتخابات میں کامیابی سے انکے خیمے میں مزید جوش و جذبہ پیدا ہوا ہے، لیکن جموں کشمیر کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور خود بی جے پی کے کارکنان یہاں اسمبلی انتخابات منعقد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بی جے پی کے سینئر کارکن اور کشمیر صوبے کے ترجمان الطاف ٹھوکر نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہاکہ تین ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی سے انکے حوصلے بلند ہوئے ہیں، جس سے جموں و کشمیر میں بھی اب بی جے پی کی کسی بھی انتخابات میں کامیابی مثبت نظر آرہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں بھی پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات منعقد ہونے چاہئے۔

الطاف ٹھوکر نے مزید کہاکہ تین ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں کامیابی سے جموں و کشمیر کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی بے چین ہوئی ہیں۔ غور طلب ہو کہ اتوار کو چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں سے بی جے پی نے راجستھان، چھتیش گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کو شکست دی۔ تاہم کانگرس نے تلنگانہ ریاست کے انتخابات میں بازی ماری ہے۔

نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلی تنویر صادق نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اگر بی جے پی کی تین ریاستوں میں انکو حوصلہ افزائی ملی ہے، تو پھر مرکزی سرکار جموں کشمیر میں انتخابات منعقد کرانے سے کیوں خوف زدہ ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ جس طرح لوگوں نے ان تین ریاستوں میں اپنے ووٹ کا استعمال کرکے اپنا جمہوری حق ادا کیا، اسی طرح جموں کشمیر میں بھی عوام کو اپنا جمہوری حق ادا کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ تنویر صادق نے کہاکہ جموں کشمیر میں نو سال قبل اسمبلی انتخابات ہوئے تھے اور پانچ برسوں سے یہاں صدر راج نافذ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ جموں کشمیر کو مزکری سرکار الگ ترازو سے تول رہی ہے۔

نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہاکہ جموں کشمیر بھی ملک کا حصہ ہے لیکن مرکزی سرکار اس خطے کے عوام کے ساتھ کیوں نا انصافی کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ جموں کشمیر میں 2014 میں اسمبلی انتخابات منعقد کئے گئے تھے، جس میں بی جی پی اور پی ڈی پی کو اکثریت ملی تھی اور ان دو جماعتوں نے مخلوط سرکار تشکیل دی۔ تاہم یہ سرکار محض اڑھائی سال تک قائم رہی اور 2018 جون میں بی جے پی نے پی ڈی پی کو الوداع کہہ کر سرکار کا خاتمہ کرکے یہاں صدر راج نافذ کیا۔


5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرکے یہاں لیفٹنٹ گورنر حکومت چلا رہا ہے۔ مقامی سیاسی جماعتیں مرکزی سرکار اور الیکشن کمیشن سے بار بار مطالبہ کر رہی ہیں کہ یہاں اسمبلی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ تاہم مزکری سرکار یہاں اسمبلی انتخابات منعقد کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہے۔


یہ بھی پڑھیں:

اپوزیشن جماعتیں بالخصوص نیشنل کانفرنس بی جے پی کو طعنے دے رہی ہے کہ حکمران جماعت جموں کشمیر میں اس لئے کسی بھی انتخابات کو منعقد نہیں کرنا چاہتی ہے کیونکہ دفعہ 370 کی منسوخی سے یہاں لوگ اس جماعت سے نفرت کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ جموں کشمیر میں پنچایتی و بلدیاتی انتخابات بھی منعقد نہیں کئے جارہے ہیں، اگرچہ ان اداروں کی پانچ سالہ مدت ختم ہوئی ہے یا جنوری میں پنچایتی نظام کی مدت ختم ہونے والی ہے۔

کیا بی جے پی کی تین ریاستوں میں کامیابی کے بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ممکن ہیں؟

جموں و کشمیر: بھارتیہ جنتا پارٹی کی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیش گڑھ میں اسمبلی انتخابات میں کامیابی سے انکے خیمے میں مزید جوش و جذبہ پیدا ہوا ہے، لیکن جموں کشمیر کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور خود بی جے پی کے کارکنان یہاں اسمبلی انتخابات منعقد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بی جے پی کے سینئر کارکن اور کشمیر صوبے کے ترجمان الطاف ٹھوکر نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہاکہ تین ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی سے انکے حوصلے بلند ہوئے ہیں، جس سے جموں و کشمیر میں بھی اب بی جے پی کی کسی بھی انتخابات میں کامیابی مثبت نظر آرہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں بھی پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات منعقد ہونے چاہئے۔

الطاف ٹھوکر نے مزید کہاکہ تین ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں کامیابی سے جموں و کشمیر کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی بے چین ہوئی ہیں۔ غور طلب ہو کہ اتوار کو چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں سے بی جے پی نے راجستھان، چھتیش گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کو شکست دی۔ تاہم کانگرس نے تلنگانہ ریاست کے انتخابات میں بازی ماری ہے۔

نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلی تنویر صادق نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اگر بی جے پی کی تین ریاستوں میں انکو حوصلہ افزائی ملی ہے، تو پھر مرکزی سرکار جموں کشمیر میں انتخابات منعقد کرانے سے کیوں خوف زدہ ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ جس طرح لوگوں نے ان تین ریاستوں میں اپنے ووٹ کا استعمال کرکے اپنا جمہوری حق ادا کیا، اسی طرح جموں کشمیر میں بھی عوام کو اپنا جمہوری حق ادا کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ تنویر صادق نے کہاکہ جموں کشمیر میں نو سال قبل اسمبلی انتخابات ہوئے تھے اور پانچ برسوں سے یہاں صدر راج نافذ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ جموں کشمیر کو مزکری سرکار الگ ترازو سے تول رہی ہے۔

نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہاکہ جموں کشمیر بھی ملک کا حصہ ہے لیکن مرکزی سرکار اس خطے کے عوام کے ساتھ کیوں نا انصافی کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ جموں کشمیر میں 2014 میں اسمبلی انتخابات منعقد کئے گئے تھے، جس میں بی جی پی اور پی ڈی پی کو اکثریت ملی تھی اور ان دو جماعتوں نے مخلوط سرکار تشکیل دی۔ تاہم یہ سرکار محض اڑھائی سال تک قائم رہی اور 2018 جون میں بی جے پی نے پی ڈی پی کو الوداع کہہ کر سرکار کا خاتمہ کرکے یہاں صدر راج نافذ کیا۔


5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرکے یہاں لیفٹنٹ گورنر حکومت چلا رہا ہے۔ مقامی سیاسی جماعتیں مرکزی سرکار اور الیکشن کمیشن سے بار بار مطالبہ کر رہی ہیں کہ یہاں اسمبلی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ تاہم مزکری سرکار یہاں اسمبلی انتخابات منعقد کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہے۔


یہ بھی پڑھیں:

اپوزیشن جماعتیں بالخصوص نیشنل کانفرنس بی جے پی کو طعنے دے رہی ہے کہ حکمران جماعت جموں کشمیر میں اس لئے کسی بھی انتخابات کو منعقد نہیں کرنا چاہتی ہے کیونکہ دفعہ 370 کی منسوخی سے یہاں لوگ اس جماعت سے نفرت کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ جموں کشمیر میں پنچایتی و بلدیاتی انتخابات بھی منعقد نہیں کئے جارہے ہیں، اگرچہ ان اداروں کی پانچ سالہ مدت ختم ہوئی ہے یا جنوری میں پنچایتی نظام کی مدت ختم ہونے والی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.