سنہ 2014کے مقابلے اس بار بارہمولہ پارلیمانی حلقے میں رائے دہی کی شرح میں4.5 فیصد گراوٹ درج کی گئی۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ رائے دہی کی شرح سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا لیکن نتائج معنی رکھتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی الطاف حسین نے کہا کہ " پہلی بار ریاست کی سیاسی جماعتوں کے پاس بجلی، پانی اور سڑک کے علاوہ کشمیر کی شناخت کا مسئلہ تھا'۔
الطاف حسین نے کہا ' ایسا مانا جارہا تھا کہ لوگ انتخابات میں حصہ بی جے پی کو دور رکھنے کے لیے بڑھ چڑھ کر لینگے لیکن گرتی شرح کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں'۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر غیر رجسٹرڈ رائے دہند گان کو بھی جوڑا جائے تو اس بار کی شرح اور نیچے گر سکتی ہے۔
سرینگر پارلیمانی نشست پر بارہمولہ کے اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ضمنی انتخابات کے دوران وادی میں شرح تقریباً سات فیصد تھی اور پارلیمانی انتخابات میں بھی تقریباً یہی امید ہے۔"
انتخابات کے نتائج پر زیادہ زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "اگر بارہمولہ نشست سے پیپلز کانفرنس کے امیدوار سجاد غنی لون جیت جاتے ہیں تو بڑی بات ہوگی۔ حالانکہ سجاد لون اس وقت بی جے پی سے دوری بنائے ہوئے ہیں لیکن کشمیر میں بی جے پی کے سب سے عزیز بھی وہی ہیں۔"