ضلع میں ایک ایسا بھی گاؤں ہے جہاں کے باشندے آج کے اس دور میں جب بھارت چاند اور دوسرے دنیا میں جانے کی تدبیریں کر رہا ہے، میں بھی ندی کا گندا پانی پینے کو مجبور ہیں۔
بات ہو رہی ہے سیزن شاہورہ کے باشندوں کی جن کو تمام سرکاری دعوں کے باوجود پینے کا صاف پانی میثر نہیں ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ گاؤں میں نہ کوئی نل ہے نا ہی ٹیوب ویل۔
اگر بات سرکاری دعووں اور ان جانب سے کی جانے والی کاموں کی جائے تو حکومت نے چند برس قبل یہاں پانی کے لیے پایپیں بچھائی تو تھیں لیکن اس پائپوں کو پانی کے لیے بجھایا تھا یہ بھول گئے، جس کی وجہ سے گاوں میں پانی ندارد ہے۔
زندہ رہنے کی شرط اور مجبوری نے لوگوں کو گاؤں کے پاس ہی بہنے والی ایک ندی کا گندہ پانی نہ صرف پینے کے لیے بلکہ نہانے، کپڑے دھونے اور دیگر ضروری کاموں کے لئے بھی استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس ضمن میں جب مقامی لوگوں سے بات کی گئی تو تقریبا لوگوں نے حکام کے بے رخی اور حکومت کے غیر توجہی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔
لوگوں کا الزام ہے کہ بالائی علاقوں کے دیہات کی گندگی کی نکاسی اسی ندی میں ملتی ہے اس لیے یہ پانی پینے کے لائق ہے ہی نہیں۔
دوسری جانب اس ندی کے پانی کے استعمال کرنے سے اکثر مقامی لوگ خاص طور پر بچے بیمار بھی ہو جاتے ہیں یعنی پانی ملنے پر موت اور نہ ملنے پر کئی بیماریوں کو دعوت۔
مقامی لوگوں نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب لوگ تکنیک اور دیگر مشینوں اور تیکنالوجی کا استعمال کر شفاف ترین پانی کا استعمال نہانے اور ہاتھ دھونے کے لیے کرتے ہیں اس دور میں بھی یہاں کے باشندے ندی کے گندے پانی کو پینے کے لیے مجبور ہیں۔
اس ضمن میں متعلقہ محکمہ کے ایگزیکیوٹیو انجینئر نے بتایا کہ اس گاؤں کے لئے حکومت کی ایک اسکیم کے تحت پانی کی ٹنکی تیار کی جارہی ہے لیکن کسی نامعلوم وجہ سے کام رکا ہوا ہے تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ گاؤں میں جلد ہی ہر دوسرے روز پانی کی ٹنکی دستیاب ہوگی۔
اب دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ پانی کی ٹنکی کتنے دنوں میں دستیاب ہوتی ہے یا وہ بھی کہیں ٹنکی اور پائپوں کے طرح راستے میں ہی کسی نا معلوم وجہ سے رک تو نہیں جاتی؟