جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ٹینگن گاؤں سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ نوجوان علی محمد نے سرکاری نوکریوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنا کاروبار شروع کر کے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دیگر 15 نوجوانوں کے لیے روزگار کمانے کا ذریعہ پیدا کیا ہے۔
علی محمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے گریجویشن کی ڈگری لینے کے بعد اگر چہ کئی بار مختلف سرکاری و غیرسرکار محکموں میں نوکری ڈھونڑنے کی کوشش کی تاہم ان کی یہ کوشش لاحصول ہی ثابت ہوٸی اور انہیں کہی نوکری نہیں ملی۔
انہوں نے کہا جب ان کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوٸیں تو انہوں نے اپنے کاروبار کو شروع کرنے کی ترکیب سوچ کر شہد کی مکھیوں کے پالنے کا ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹے پیمانے سے شہدکی مکھیوں کا یہ کاروبار شروع کر کے ان کی زندگی بدلنے لگی اور انہوں نے اپنے کاروبار میں بڑھوتری کرنی شروع کر دی اور آج وقت آ گیا ہے جب وہ اپنے ساتھ ساتھ 15 دیگر بےروزگار نوجوانوں کو بھی روزگار فراہم کر رہا ہے۔
علی محمد نے کہا کہ وادی میں بے روزگاری کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہاں کے نوجوان پڑھنے لکھنے کے بعد سرکاری نوکریوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا سرکار کے پاس اتنے وسائل نہیں ہے کہ ہر نوجوان کو سرکاری نوکری فراہم کی جائے۔اس لیے نوجوانوں کو سرکاری نوکریوں کے بجائے اپنا کاروبار شروع کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسرے نوجوانوں کے لیے بھی روزگار کے مواقعے پیدا کریں۔
علی محمد کا مزید کہنا ہے کہ اپنا کاروبار شروع کرنے کے بعد آج اس کی زندگی خوشحال ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے بلکہ 15 لوگ اس کے اندر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا وہ اپنا روزگار چلانے کے علاوہ اور دس کنبوں کو بھی روزگار فراہم کر رہا ہے جو اس کے لیے باعث فخر بات ہے۔
مذکورہ نوجوان نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر نوجوان شہد کی مکھیوں کے پالنے کا ہی کاروبار کرے بلکہ اور بھی بہت سارے کاروبار ہے جس کسی شعبہ میں بھی ان کا ہنر ہو گا اسی میں اپنا کاروبار شروع کریں تاکہ ان کی زندگی بھی خوشحال بن جائے اور وہ بھی نوکری لینے کے بجائے نوکری دینے والے بن جائے جس سے ہم وادی کشمیر میں بے روزگاری جیسے سنگین مسلے پر قابوں پا سکتے ہیں اور وادی کشمیر کو اقتصادی طور مستحکم بنایا جاسکتا ہیں۔