خار دار تاروں سے سیل کیے گئے اس پل پر سے لوگوں کی نقل وحمل ہنوز بند ہے جس کے نتیجے میں مقامی آبادی اس پل پر سے سفر کرنے سے محروم ہے جبکہ یہاں موجود دکاندار وں کا کاروبار بھی بُری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
وہیں اس پل کے دونوں طرف کے دوکانداروں کا کاروبار بھی پابندی کے سبب ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔
لوگوں کی محدود نقل و حرکت کی وجہ سے یہ دکاندار دن بھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر خریداروں کے آنے کی راہ تکتے رہتے ہیں لیکن خریدار ندارد ہے۔
جموں و کشمیر میں تنظیم کے بعد اگرچہ شہر کی تقریباً سبھی چھوٹی بڑی سڑکوں اور پلوں پر سے تمام طرح کی بندشیں ہٹا دی گئی ہیں لیکن اس تاریخی حبہ کدل پر خاردار تاریں ویسے کی ویسے ہی ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ 'اس پل کو بند کیے جانے سے جہاں آمدورفت میں مقامی آبادی کو کئی مشکلات درپیش ہیں۔ وہیں آرپار کے دو تین منٹ کے سفر کے بجائے آدھا گھنٹہ سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ مقامی طلبا و طالبات کو بھی اس پل کے ارد گر گھوم کر ٹیوشن مراکز تک پہنچتے پہنچتے کافی وقت لگ جاتا ہے۔
پرانے حبہ کدل کو اتنے طویل عرصے سے بند رکھنے سے ایک جانب مقامی آبادی کی آمدورفت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ دوسری طرف یہاں تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑگئی ہیں۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ 'اگر اس پُل سے رُکاوٹیں فوری طور ہٹائی نہیں گئی تو مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ دکاندار سخت احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کی مشکلات و مسائل کے مدنظر اس پرانے پل کو آمدورفت کے لیے دوبارہ کھول دیا جائے تاکہ مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ دکانداروں کو بھی راحت پہنچائی جا سکے۔