جموں کے ٹاڈا عدالت نے اس معاملے کی سماعت کے لیے 26 نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔
بتادیں کہ اس سے قبل قومی تحقیقاتی ایجنسی نے یاسین ملک اور دیگر علحیدگی پسند رہنما، مسرت عالم ، شبیر شاہ اور آسیہ اندرابی کے خلاف شدت پسندوں کی مالی معاونت کے مقدمے میں این آئی اے کی خصوصی عدالت میں چارج شیٹ داخل کی ٹہب۔
یاسین ملک پر الزام ہے کہ انہوں نے 25 جنوری 1990 کو اسکواڈرن لیڈر روی کھنہ اور ان کے تین ساتھیوں کو سرینگر کی مضافات میں واقع راولپورہ علاقے میں گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ یاسین ملک، ان نوجوانوں میں شامل تھے جنہوں نے 1989 میں پہلی بار حکومت کے خلاف بندوق اٹھائی۔
عبدالحمید شیخ، اشفاق مجید وانی، جاوید میر اور یاسین ملک پر مشتمل پہلے چار بندوق برداروں کو حاجی گروپ کہا جاتا تھا۔ حکام کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں بھارت مخالف عسکریت پسندی شروع ہونے کے وقت، کشمیر میں ہونیوالے اکثر پرتشدد واقعات میں اسی گروپ کا ہاتھ رہا ہے۔ حمید شیخ اور اشفاق مجید پہلے ہی مارے جاچکے ہیں جبکہ ملک اور جاوید میر اس وقت زیر حراست ہیں۔
یاسین ملک پر سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کی دختر روبیہ سعید کے اغوا کا بھی الزام ہے۔ یاسین ملک کو مارچ میں حراست میں لیا گیا تھا لیکن انہیں گذشتہ مہینے شدت پسندوں کی مالی معاونت کے الزام میں نیشنل انوسٹگیشن ایجینسی (این آئی اے) کی تحویل میں دیا گیا جس کے بعد انہیں تہاڑ جیل میں رکھا گیا ہے۔
یاسین ملک نے 1994 میں عسکریت پسندی کو خیر باد کہا تھا جس کے بعد وہ سیاسی سطح پر سرگرم ہوگئے تھے۔