ETV Bharat / state

ہماچل پردیش: جنرل پوسٹ آفس شملہ تاریخی وراثتوں میں سے ایک

ہماچل پردیش کی تاریخی وراثت میں شامل شملا کے اسکینڈل پوائنٹ کے قریب واقع شملا جنرل پوسٹ آفس تاریخی اہمیت کے حامل ہے۔

جنرل پوسٹ آفس شملہ کے تاریخی وراثتوں میں سے ایک
جنرل پوسٹ آفس شملہ کے تاریخی وراثتوں میں سے ایک
author img

By

Published : Feb 19, 2020, 1:07 PM IST

Updated : Mar 1, 2020, 8:10 PM IST

ہماچل پردیش کے دارلحکومت اور انگریزوں کے دور اقتدار میں سمر کیپیٹل (موسم گرما کا پایہ تخت) شملا آج صرف صاف و شفاف آب و ہوا کے اور برف کی چادروں سے ڈھکی وادیوں کے خوشنما منظر کے لئے ہی مشہور نہیں ہے بلکہ یہ شہر اپنے دامن میں سمیٹے کئی تاریخی لمحات کے لئے بھی جانا جاتاہے۔

ہماچل پردیش کے تاریخی وارثت کی فہرست میں شامل شملا کے اسکین اسکینڈل پوائنٹ کے قریب ہی واقع شملا جنرل پوسٹ آفس بھی اپنے آپ میں کچھ ایسے ہی کہانیاں بزبان حال بیان کر رہی ہیں۔

جنرل پوسٹ آفس شملہ کے تاریخی وراثتوں میں سے ایک

حال ہی میں وراثت کی فہرست میں جگہ پا چکی ( جی پی او) یعنی جنرل پوسٹ آفس کی اس عمارت کے مقام پر کبھی متعدد دوکانیں ہوا کر تی تھیں ۔

تاریخی مال روڈ پر اسکینڈل پوائینٹ کے قریب واقع جی پی او کی تعمیر 1883 میں کی گئی تھی ۔

ڈاک خانہ بننے سے قبل یہ عمارت کانی لاج کے نام جا نا جا تا تھا ۔

1880 میں شعبہ ڈاک نے انگریز پیٹرسن سے اس تاریخی عما رت کو خرید لیا اور اس کے بعد سے ہی اس عمارت میں ڈاک کے امور کا آغاز ہوا۔

ابتدائی دور میں اس مقام پر یورپین درزی اینگل برگ اینڈ کمپنی کی کئی دوکا نیں تھیں ۔ کپڑوں کی سلائی کا کام بند ہونے کے بعد اس عمارت میں چندعرصہ تک شملہ بینک بھی چلتا رہا ۔

اس کے بعد اس عمارت کو اس کے مالک پیٹرسن سے خرید لیا گیا ۔ اس کے بعد 1883 میں کاٹیج کے نام سے ہی یہاں ڈاک کے سرگرمیوں کا آغاز ہوا ۔ جس میں بیرون ممالک کے ڈاک آیا کرتے تھے۔

انگریزوں کے دور اقتدار میں جب شملہ جی پی او میں بیرون ممالک کے ڈاک آتے تھے تو اس وقت ڈاک خانے کے اس عما رت پر سرخ رنگ کا جھنڈا لہرا گر اور گھنٹی بجا کر اس کے بارے میں اطالاعات فراہم کی جا تی تھیں ۔

جس سے یہ اشارے ملتے تھے کہ ڈاک آچکی ہے اور انگریز افسران اپنے خادموں کو یہاں بھیج کر ڈاک منگوا لیں۔۔

ڈاک سے صرف خطوط ہی نہیں بلکہ رسالے ،اخبارات،کپڑے کے علاوہ دیگر ضروری چیزیں بھی اس ذریعہ سے شملہ پہونچتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جس دن ڈاک آتی تھیں تو اسی رات میں لالٹین کی روشنی میں سامان تقسیم کئے جاتے تھے۔اتوار کو بھی ان ملا زمین کو چھٹی نہیں ملتی تھی۔

شملہ میں ریل گاڑی خدمات کے آغاز سے قبل کالکہ کے شملہ تک تا نگے پر ےہی ڈاک لائی جاتی تھیں۔

کالکہ سے شملہ کے درمیان تین دفعہ تانگے کے گھوڑے بدلے جاتے تھے۔ بڑوگ اور کیاری اس کے اسٹیشن تھے۔ جہاں کالکہ سے چلے گھوڑوں بگوڑ اور بگوڑ سے چلنے والے گھوڑوں کو آرام دینے کے لئے کیا ری کے مقام پر بدلا جا تھا۔ جہاں ایک ڈاک بنگل بھی تھا۔

اتنا ہی بلکہ اس دور میں چیزیں بھی رکشہ میل کے ذریعہ ہی آتی تھیں اور اس کے آنے پر اسے راستے دئیے جا تے تھے ۔

موسم سرما کے دارالحکومت ہو نے کی وجہ سے شملہ سیاسی مر کز تھا ۔

کئی خفیہ خطوط بھی شعبہ ڈاک کے ذریعہ سے ہی تقسیم کئے جاتے تھے۔

یکم جنوری 1947 کو ایک ہزاری نامی شخص نے اس دفتر میں پہلے بھارتی پوسٹ ماسٹر کی ذمہ داریاں سنبھا لی تھیں۔

جی پی او عمارت کے طرز تعمیر کی اگر بات کی جائے تو اس کی تعمیر میں تکنیک کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے ۔اسی وجہ سے یہ عمارت بڑے سے بڑے زلزلوں کے جھٹکے کو بھی برداشت کر لیتی ہے ۔

سہ منزلہ ا س عمارت میں لکڑی کے چھ مضبوط ستون نصب کئے گئے ہیں ۔ انگریزوں کے دور اقتدار میں اس عمارت کے بیس مینٹ میں ایک چمنی بھی لگائی جاتی تھیں۔ جس سے پوری عمارت کے کمرے گرم رہتے تھے ۔موجودہ وقت میں یہ مضبو ط ستون تو ہیں مگر چمنی کو بند کردیا گیا ہے۔

1972 میں جی پی او کی اس عمارت میں اؑ گ لگی تھی ۔ اور اس وقت یہاں کے ملازمین کھڑ کیوں سے ضروری دستاویزات اور دیگر اشیا کو باہر پھینک دیا تھا۔

اس کے بعد عمارت کے آگ سے متاثرہ مقامات کی مرمت کی گئی تھی اور عمارت کو بھی اسی قدیم طرز تعمیر کے طور پر تیار کیا گیا ۔

1992 میں اس عمارت کو ہیریٹیج کا درجہ دیا گیا۔ ابتدا سے لے کر اب تک یہ تاریخی عما رت نے خطوط کو ای میل میں بدلتے ہوے دیکھا ہے ۔

ہماچل پردیش کے دارلحکومت اور انگریزوں کے دور اقتدار میں سمر کیپیٹل (موسم گرما کا پایہ تخت) شملا آج صرف صاف و شفاف آب و ہوا کے اور برف کی چادروں سے ڈھکی وادیوں کے خوشنما منظر کے لئے ہی مشہور نہیں ہے بلکہ یہ شہر اپنے دامن میں سمیٹے کئی تاریخی لمحات کے لئے بھی جانا جاتاہے۔

ہماچل پردیش کے تاریخی وارثت کی فہرست میں شامل شملا کے اسکین اسکینڈل پوائنٹ کے قریب ہی واقع شملا جنرل پوسٹ آفس بھی اپنے آپ میں کچھ ایسے ہی کہانیاں بزبان حال بیان کر رہی ہیں۔

جنرل پوسٹ آفس شملہ کے تاریخی وراثتوں میں سے ایک

حال ہی میں وراثت کی فہرست میں جگہ پا چکی ( جی پی او) یعنی جنرل پوسٹ آفس کی اس عمارت کے مقام پر کبھی متعدد دوکانیں ہوا کر تی تھیں ۔

تاریخی مال روڈ پر اسکینڈل پوائینٹ کے قریب واقع جی پی او کی تعمیر 1883 میں کی گئی تھی ۔

ڈاک خانہ بننے سے قبل یہ عمارت کانی لاج کے نام جا نا جا تا تھا ۔

1880 میں شعبہ ڈاک نے انگریز پیٹرسن سے اس تاریخی عما رت کو خرید لیا اور اس کے بعد سے ہی اس عمارت میں ڈاک کے امور کا آغاز ہوا۔

ابتدائی دور میں اس مقام پر یورپین درزی اینگل برگ اینڈ کمپنی کی کئی دوکا نیں تھیں ۔ کپڑوں کی سلائی کا کام بند ہونے کے بعد اس عمارت میں چندعرصہ تک شملہ بینک بھی چلتا رہا ۔

اس کے بعد اس عمارت کو اس کے مالک پیٹرسن سے خرید لیا گیا ۔ اس کے بعد 1883 میں کاٹیج کے نام سے ہی یہاں ڈاک کے سرگرمیوں کا آغاز ہوا ۔ جس میں بیرون ممالک کے ڈاک آیا کرتے تھے۔

انگریزوں کے دور اقتدار میں جب شملہ جی پی او میں بیرون ممالک کے ڈاک آتے تھے تو اس وقت ڈاک خانے کے اس عما رت پر سرخ رنگ کا جھنڈا لہرا گر اور گھنٹی بجا کر اس کے بارے میں اطالاعات فراہم کی جا تی تھیں ۔

جس سے یہ اشارے ملتے تھے کہ ڈاک آچکی ہے اور انگریز افسران اپنے خادموں کو یہاں بھیج کر ڈاک منگوا لیں۔۔

ڈاک سے صرف خطوط ہی نہیں بلکہ رسالے ،اخبارات،کپڑے کے علاوہ دیگر ضروری چیزیں بھی اس ذریعہ سے شملہ پہونچتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جس دن ڈاک آتی تھیں تو اسی رات میں لالٹین کی روشنی میں سامان تقسیم کئے جاتے تھے۔اتوار کو بھی ان ملا زمین کو چھٹی نہیں ملتی تھی۔

شملہ میں ریل گاڑی خدمات کے آغاز سے قبل کالکہ کے شملہ تک تا نگے پر ےہی ڈاک لائی جاتی تھیں۔

کالکہ سے شملہ کے درمیان تین دفعہ تانگے کے گھوڑے بدلے جاتے تھے۔ بڑوگ اور کیاری اس کے اسٹیشن تھے۔ جہاں کالکہ سے چلے گھوڑوں بگوڑ اور بگوڑ سے چلنے والے گھوڑوں کو آرام دینے کے لئے کیا ری کے مقام پر بدلا جا تھا۔ جہاں ایک ڈاک بنگل بھی تھا۔

اتنا ہی بلکہ اس دور میں چیزیں بھی رکشہ میل کے ذریعہ ہی آتی تھیں اور اس کے آنے پر اسے راستے دئیے جا تے تھے ۔

موسم سرما کے دارالحکومت ہو نے کی وجہ سے شملہ سیاسی مر کز تھا ۔

کئی خفیہ خطوط بھی شعبہ ڈاک کے ذریعہ سے ہی تقسیم کئے جاتے تھے۔

یکم جنوری 1947 کو ایک ہزاری نامی شخص نے اس دفتر میں پہلے بھارتی پوسٹ ماسٹر کی ذمہ داریاں سنبھا لی تھیں۔

جی پی او عمارت کے طرز تعمیر کی اگر بات کی جائے تو اس کی تعمیر میں تکنیک کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے ۔اسی وجہ سے یہ عمارت بڑے سے بڑے زلزلوں کے جھٹکے کو بھی برداشت کر لیتی ہے ۔

سہ منزلہ ا س عمارت میں لکڑی کے چھ مضبوط ستون نصب کئے گئے ہیں ۔ انگریزوں کے دور اقتدار میں اس عمارت کے بیس مینٹ میں ایک چمنی بھی لگائی جاتی تھیں۔ جس سے پوری عمارت کے کمرے گرم رہتے تھے ۔موجودہ وقت میں یہ مضبو ط ستون تو ہیں مگر چمنی کو بند کردیا گیا ہے۔

1972 میں جی پی او کی اس عمارت میں اؑ گ لگی تھی ۔ اور اس وقت یہاں کے ملازمین کھڑ کیوں سے ضروری دستاویزات اور دیگر اشیا کو باہر پھینک دیا تھا۔

اس کے بعد عمارت کے آگ سے متاثرہ مقامات کی مرمت کی گئی تھی اور عمارت کو بھی اسی قدیم طرز تعمیر کے طور پر تیار کیا گیا ۔

1992 میں اس عمارت کو ہیریٹیج کا درجہ دیا گیا۔ ابتدا سے لے کر اب تک یہ تاریخی عما رت نے خطوط کو ای میل میں بدلتے ہوے دیکھا ہے ۔

Last Updated : Mar 1, 2020, 8:10 PM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.