اس کیمپ میں ملک کی تمام ریاستوں کے 138 کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں 18 لڑکیاں ہیں۔ قومی کیمپ میں شریک ان تمام کھلاڑیوں کو صبح 9 بجے سے شام 1 بجے تک سائنسی طریقے سے تربیت دی جاتی ہے۔
رائز ان اسپورٹس ایکسیلینس نام سے شروع کئے گئے اس کیمپ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کی اعلیٰ سطح کی تشخیص اور سائنسی تجزیہ کے ساتھ ساتھ ان کی پیش رفت پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔
ایسا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ کھیل دیگر کھیلوں کی طرح بین الاقوامی سطح کا کھیل بن جائے گا۔
فیڈریشن کے صدر سدھانشو متل نے کہا کہ ہر اسپورٹس پرسن کے لئے دو چیزیں سب سے اہم ہیں۔ پہلا اس کی آنکھوں میں ایک خواب ہو، دوسرا پیٹ کے لئے بھوک کی آگ۔ یہ دو چیزیں ایک کھلاڑی کو چیمپئن بناتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کھو کھو پہلے مٹی کا کھیل سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ یہ کھیل دنیا کے متعدد ممالک جیسے ایران، قازقستان، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا وغیرہ میں کھیلا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہمارے ملک میں بھی کھوکھو کو سائنسی خطوط پر استوار کر دیا گیا ہے، جو یقینا عالمی سطح پر عمدہ کھلاڑی تیار کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
سدھانشو متل نے کہا کہ اگر ہم کھو کھو کھیل کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو پھر اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو بہتر کرنے کے لئے ٹکنالوجی کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اعلی کارکردگی کی تربیت دے کر ہمارے کھلاڑی عالمی چیمپیئن بن سکتے ہیں۔ اس کیمپ میں کھلاڑیوں کو سخت ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ نیز نگرانی کے ذریعے ان کی کارکردگی کا تجزیہ بھی کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اتراکھنڈ میں گلیشیئر ٹوٹنے سے زبردست تباہی، الرٹ جاری
اسپورٹس سائنس کے مختلف پہلوؤں فزیوتھیراپی، ری ہیبیلیشن، بائیو مکینکس، بائیوکینیٹکس، کھیلوں کی کارکردگی کا تجزیہ، غذائیت کی رہنمائی کو عمل میں لایا جا رہا ہے۔ کھلاڑیوں کی چستی اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ رفتار اور اسپورٹس مین شپ کا بھی امتحان لیا جا رہا ہے۔ ان کیمپوں سے کھلاڑیوں کی اسپورٹس مین شپ میں اضافے کے ساتھ ساتھ چمپیئن کھلاڑی مسلسل تیار رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستانی کھیلوں کی پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔