حال ہی میں سینٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکانومی(سی ایم آئی ای) کی رپورٹ نے یہ بات ثابت کی ہے یہاں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ساتھ ہی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہریانہ میں یہ صورتحال آنے والے چند مہینوں تک باقی رہ سکتی ہے۔
سی ایم آئی ای کی رپورٹ کے مطابق ریاست ہریانہ بیروزگاری کے معاملے میں پورے ملک میں سرفہرست ہے۔
ہریانہ کے 33.6 فیصد لوگوں کو آج بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہاں ریاست اترپردیش اور بہار سے بھی زیادہ ہے۔
ہریانہ کے بعد دوسرے نمبر بیروزگاری میں تری پورا کا مقام ہے، جہاں 21 اشاریہ فیصد بیروزگاری ہے۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ویمل انجم کا کہنا ہے ریاست ہریانہ میں بیروزگاری کا سبب زراعتی مزدور کی کمی ہے۔یہاں اترپردیش اور بہار سے مزدور سے زرعی کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اس برس لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کی وجہ سے اپنے علاقےمیں واپس چلے گئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہریانہ کے لوگ اس طرح زرعی کام نہیں کر پاتے ہیں، اس لیے یہاں بیروزگاری بڑھ گئی۔
وہیں انہوں نے کہا کہ چوں کہ ہریانہ ایک صنعتی علاقہ بھی ہے اور ابھی تک یہاں ساری انڈسٹریاں ابھی تک نہیں کھل پائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک انڈسٹری میں کوئی کام نہیں ہوگا، ہریانہ میں بیروزگاری میں کمی نہیں آئے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ منریگا اسکیم سے بھی بیروزگاری میں کمی نہیں ہونے والی ہے۔
ہریانہ میں بیروزگری کی شرح کو درست کرنے میں کم از کم 5 سال لگ سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں:روپیہ تین پیسے مضبوط
ریاست ہریانہ کے نائب وزیراعلیٰ دشینت چوٹالہ کہا ہے کہ ملازمت کے لیے درخواست دینے والوں کی تعداد 28 لاکھ ہے، بقیہ نے درخواست نہیں دی ہے کیوں کہ 35 لاکھ افراد کی فی الوقت گنجائش ہے۔