انہوں نے آج جاری بیان میں کہا کہ کسان کپاس کی اچھی پیداوار لینے کے لیے اپنی جانب سے ساری خرچ لگا چکے تھے لیکن فصل تیار ہونے سے قبل ہی سفید مکھی بیماری نے فصل تباہ کردی۔
ایسے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ کسان کو مناسب معاوضہ دے۔ مسٹر ہڈا نے کہا کہ کسان ملک کا ان داتا ہے، جس نے کورونا جیسی بیماری کے دور میں بھی ملک کو اناج، سبزی اور دودھ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں اس کی فصل کو نقصان پہنچتا ہے تو حکومت کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کے زخموں پر مرہم لگائے۔
سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ برس بے وقت کی ژالہ باری سے ریاست کے متعدداضلاع میں ربیع کی فصل خراب ہوگئی تھی، اس کا معاوضہ بھی کسانوں کو اب تک نہیں ملاہے۔
معاوضہ تقسیم کرنے کا کام افسران کی لاپرواہی کے سبب کافی وقت سے رکا ہواہے۔ حکومت کو اس کے لیے ذمہ دار افسران پر سخت کارروائی کرنی چاہیے اور کسانوں کو جلد راحت پہنچانی چاہیے۔
کبھی بیماری، کبھی ٹڈی دل تو کبھی بے موسم برسات وژالہ باری مسلسل کسانوں کی فصلوں کو برباد کررہے ہیں لیکن انہیں معاوضہ کے نام پر صرف طویل انتظار ہی ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسان کنگال ہورہے ہیں اور حکومت پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کو مالامال کرنے میں مصروف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بڑھتی کھیتی کے اخراجات اور مہنگائی کے باوجود پی ایم فصل بیمہ کی پریمیم رقم میں بھی اضافہ کردیا گیا۔
سرکاری پالیسیز اور رویے کی چہارطرفہ مار کسان پر پڑرہی ہے۔ رہی سہی مرکزی حکومت کے ذریعہ لائے گئے تین زرعی آرڈیننس نے پوری کردی۔
اگر یہ آرڈیننسز کم از کم امدادی قیمت کے بغیر نافذ ہوتے ہیں تو کسان اپنی ہی زمین پر ایک نوکر بن کر رہ جائے گا اور بڑی بڑی کمپنیز اسے اپنا محتاج بنا لیں گی۔