اگر کوئی شخص واقعی آزادی کی قدر جاننا چاہتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے آزادی پسندوں نے کن کن حالات اور مصائب و آلام کا سامنا کیا۔
تمام رکاوٹوں کے باوجود مادر وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد، ان کی قربانیاں اور آخری سانس تک لڑنے کی خواہش سب کچھ مثالی ہیں۔
ہمیں بھلے ہی 1947 میں آزادی ملی ہو لیکن اس آزادی کی جدوجہد واقعی کافی لمبی ہے۔
ایسا ہی ایک وقت 1857 کا تھا جب بھارتی فوجی، برطانوی افسروں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ وقت پہلی جنگ آزادی کے نام سے مشہور ہوا۔
یہ 1857 کے ان گمنام ہیروز کی کہانی ہے جنہوں نے ہریانہ میں حصار کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
29 مئی 1857 کو باغی افواج نے حصار پر قبضہ کر کے اسے آزاد قرار دیا، لیکن یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ تمام برطانوی فوجی جو حصار میں تھے، انہیں یا تو قتل کر دیا گیا یا انقلابیوں نے انہیں جیل میں ڈال دیا، لیکن ایک برطانوی فوجی فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور اپنے سینیئر افسران کو پورے واقعے سے آگاہ کیا۔
برطانوی افواج جلد ہی دوبارہ منظم ہوگئیں اور باغی افواج پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
باغی افواج کی قیادت اعظم خان کر رہے تھے جو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
انقلابیوں کے پاس روایتی ہتھیار تھے جبکہ برطانوی افواج بندوق اور توپوں سے لیس تھی۔ اس کے علاوہ برطانوی افواج کو باغیوں پر برتری حاصل تھی کیونکہ ان کی فوجی قلعے کے اندر تھیں جبکہ باغی باہر۔ اس نتیجے میں کئی انقلابی مارے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: کرشنا ناتھ سرما: آسام کے گاندھی جنہوں نے اچھوت کے خاتمے کے لیے جد و جہد کی
اس جنگ میں 438 انقلابی شہید ہوئے۔ جن میں سے 235 شہیدوں کی لاشیں بکھری پڑی ملی جبکہ بقیہ نہیں ملی تھیں۔
اس کے علاوہ ستم ظریفی اور ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ برطانوی افواج نے اپنے پاس موجود قیدیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور 123 انقلابی روڈ رولر کے نیچے کچل دیئے گئے۔
اگرچہ قلیل مدت کے لیے لیکن حصار 30 مئی 1857 سے 19 اگست 1857 تک آزاد رہا۔
یہ گُمنام ہیروز ہمیشہ ملک کی آزادی میں اپنی کی شراکت اور قربانی کا سہرا لیتے رہیں گے۔
1857 کی بغاوت بھارت میں برطانوی راج کی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس نے بھارتی معاشرے کے بہت سے طبقات کو ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد کیا۔ بھلے ہی بغاوت مطلوبہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہو لیکن اس نے بھارتیوں میں قوم پرستی کے بیج بوئے تھے۔