احمد آباد: گجرات کی معروف کاروباری شخصیت اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں مختلف ایشوز پر اظہار خیال کیا۔ ملک بھر میں زیر بحث رام مندر کے موضوع پر انہوں نے کہا کہ 'جب تک سپریم کورٹ میں کیس تھا، وہاں تک کچھ مسئلہ تھا۔ ایک بار جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا تو اب یہ کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ رام مندر ہے تو سب خاموش ہو گئے۔' انہوں نے مزید کہا کہ 'مندر بنتا ہے تو ٹھیک ہے، ہمیں کیوں پرابلم ہونی چاہیے، ہم کیوں ری ایکٹ کرتے ہیں؟ ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم ہر بات پر ری ایکٹ کرتے ہیں۔ ری ایکٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے اندر تعلیم نہیں ہے۔ ہم نے اس پر ری ایکٹ کیا؟ کاروبار میں ہم نہیں ہیں، اس پر کبھی ایکٹ نہیں کیا؟ یو پی ایس سی کے ایگزام میں ہم نہیں بیٹھتے، اس پر بھی ہم نے ری ایکٹ نہیں کیا۔ جو ری ایکٹ کرنے کی چیز ہے، ہم اس پر ری ایکشن نہیں دیتے اور بے معنیٰ ایشوز پر ری ایکٹ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو کسی طرح کا رد عمل دیتے کی ضرورت نہیں ہے۔'
بابری مسجد کے بدلے ایودھیا کے دھنی پور میں مسجد کی تعمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'سب سے پہلے اس مسجد کے خلاف ہوں۔ آپ کو وہاں پر مسجد کیوں بنانی ہے جس کے 30 کلومیٹر کے دائرے میں کوئی مسلمان آباد نہیں ہے؟ وہاں مسجد بنا کر آپ کیا کریں گے؟ میں ہوتا تو یہ کہتا کہ ہمیں اس کے بدلے میں لکھنؤ میں اسکول کالج کے لیے زمین دے دو۔ ایودھیا میں ہم مسجد بنا کر کیا کریں گے؟ میں اس کے بالکل خلاف ہوں۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اسکول بننا چاہیے وہ بھی اس جگہ جہاں مسلمانوں کی آبادی ہو۔'
حجاب کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ معاملہ کرناٹک میں ہوا تھا۔ پورے ملک میں ایسا نہیں ہے، گجرات میں بھی ایسا بالکل نہیں ہے کیونکہ گجرات کے ہر کالج اور یونیورسٹی میں مسلم بچے بھی نظر آتے ہیں۔ بمبئی میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے لیکن بمبئی یونیورسٹی میں بھی ہر کلاس میں حجاب والے بچیاں پائی جاتی ہیں۔ اس مسئلے سے کوئی دوری پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے، یہ صرف ایشو بنایا جا رہا ہے۔'
آنے والے لوک سبھا انتخابات کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ 'جو سیاسی پارٹیاں ہیں، انہیں لڑنے دیا جائے مسلمان کیوں بیچ میں آتا ہے؟ ہماری سیاست میں کیا حیثیت ہے؟ جو پارٹیاں آپ کے 90 فیصد ووٹ لیتی ہیں، وہ آپ کو ٹکٹ دیتی ہے یا نہیں؟ تو الیکشن میں کیوں بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسا حال کیے رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن آئیں گے اور چلے جائیں گے مگر آپ وہیں رہیں گے۔'
مزید پڑھیں: Exclusive Interview With Sareshwala مسلمان ایک زندہ قوم ہے، قوم کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری، ظفر سریش والا
Zafar Sareshwala مسلم قوم نئی تعلیم و تربیت سے ہی دنیا میں فتح حاصل کرسکتی ہے
اسی کے ساتھ انہوں نے مائنارٹی ایجوکیشن پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ظفر سریش والا خود بھی تعلیم و تربیت کا ایک پروگرام چلا رہے ہیں۔ اس مناسب سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گجرات میں 1992 میں جب فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تب میرے ذہن میں تعلیم و تربیت کے کے میدان میں کچھ کرنی کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس وقت مجھے لگا کہ مسلمانوں کو تعلیم کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس زمانے میں اپنے دفتر سے ہی ہم نے بہت چھوٹے پیمانے پر وکیشنل گائیڈنس پروگرام شروع کیا۔ اس کے کچھ سال بعد میں انگلینڈ چلا گیا اور 2005 میں جب بھی گجرات واپس آیا، اس وقت ہم نے پھر سے تعلیم و تربیت پر پروگرام کی شروعات کی اور اس وقت ہم نے اس کا نام امپاورمنٹ آف مسلم ٹو ایجوکیشن رکھا تھا۔ اس کے بعد 2014 سے ہم نے اس کا ایک اسٹرکچر بنایا۔ اس وقت ہمارے ساتھ سلمان خان کے والد سلیم صاحب نے جڑ کر اس نام کو بدل کر تعلیم کی طاقت رکھنے کا مشورہ دیا۔ 2014-2015 میں تعلیم کی طاقت کے نام سے پروگرام شروع کیے گئے۔ بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد بھی اس پروگرام کو کافی سپورٹ ملا اور مثبت رد عمل ملا، اسی کی وجہ سے آج بھی یہ پروگرام اپنی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رام مندر کا افتتاح: کرناٹک میں کانگریس حکومت کی مندروں میں خصوصی پوجا کرنے کی ہدایت