احمد آباد: بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب تک 181 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے، جن میں سے 58 کا تعلق او بی سی، 44 کا تعلق پاٹیدار، 15 کا کشتریہ، 26 کا ایس ٹی، اور 13 کا تعلق برہمن سے ہے۔ حالانکہ مالدھاری سماج کو ٹکٹ نہ ملنے سے ان میں مایوسی ہے۔ مزید برآں بی جے پی نے کانگریس کے 24 سابق امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے، جو کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 24 سیٹوں پر کانگریس کا مقابلہ اپنے ہی پرانے امیدواروں سے ہے۔ BJP’s Gujarat poll strategy
سنہ 2017 اور 2022 کے درمیان کانگریس کے 18 ایم ایل اے بی جے پی میں شامل ہوئے، برجیش مرجا ان میں سے ایک تھے، حالانکہ انہیں ٹکٹ سے محروم رکھا گیا۔ اس کے علاوہ دھول سنگھ جھالا اور ہکوبھا جڈیجہ کو ٹکٹ نہیں ملے۔ فی الحال کانگریس کے 24 سابق ممبران جو بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ ان کے تعلق سے کہاجارہا ہے کہ انہیں جیت سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بھلے ہی اس کے پیچھے کوئی وجہ کچھ بھی ہو۔ بی جے پی کے وفادار کارکن کے علاوہ سابق امیدواروں کے کارکنان انہیں جیت دلانے کے لیے مضبوطی سے مہم چلائیں گے، جو ان کی جیت کو یقینی بنانے میں اہم ہوگا۔
حالانکہ کہ بی جے پی نے اب تک جو فہرست شائع کی ہے اس میں رد بدل کی گنجائش ہے۔ تاہم اصل کانگریسی امیدوار جنہوں نے پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں، ان میں موربی سے برجیش مرجا، جام نگر سے ہکوبھا جڈیجہ، بید سے دھولسنگھ جھالا اور دھرنگدھرا سے پرسوتم سبریا کے نام فہرست سے غائب ہے۔ اب ان ناموں پر خوب بحث ہورہی ہے اور تبدیلی کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔
ماہرین کی رائے: سیاسی ماہر شریش کاشیکر کے مطابق 2022 کے اسمبلی انتخابات کا اعلان دو برس پہلے ہوچکا تھا۔ راجیہ سبھا انتخابات کے دوران ہی بی جے پی نے کانگریس کے اراکین اسمبلی کو بی جے پی میں شامل ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ اور کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہونے والے تمام ایم ایل ایز کو بی جے پی نے ٹکٹ دے کر اقتدار میں واپس آنے کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ اصل کانگریسی لیڈروں اور ان کے عملے کی مدد سے بی جے پی اب اقتدار میں واپسی کرنا چاہتی ہے۔
کاشیکر کا کہنا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی نے ابھی تک دوسری مضبوط لائن تیار نہیں کی ہے۔ ایک اور سیاسی حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی تخریب کاری کے بغیر بی جے پی اپنی مطلوبہ سیٹیں حاصل نہیں کرسکتی تھی، تاہم اب سیاسی افراتفری کی وجہ سے یہاں کے بی جے پی کے سینئر ارکان اور ٹکٹ کے خواہشمند قائدین بھی خاموش ہیں۔ کانگریس سے تعلق رکھنے والے کتنے باغی لیڈر گجرات اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے اور بی جے پی کی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنائیں گے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
مزید پڑھیں: