اس پر ہماری آواز تنظیم کے کنوینر کوثر علی سید کہا کہ جس طرح سے تبلیغی جماعت پر میڈیا ٹرائل چلارہی ہے وہ بہت دکھ کی بات ہے۔
آج پورا ملک کورونا کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے لیکن بھارت میں تبلیغی جماعت کے نام پر ہندو مسلم کر نفرت کی آگ پھیلائی جا رہی ہے جبکہ ایک سے 20 مارچ تک 70 ہزار سے زائد لوگ گجرات کے بہت سے مندروں میں لوگ پھنسے ہوئے تھے لیکن اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر تبلیغی جماعت کے مولانا سعد پر فریاد کی جارہی ہے تو دوسرے جگہ جو مذہبی مقامات پر جو لوگ پھنسے ہوئے تھے ان پر کاروائی کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟
کوثر علی سید نے یہ بھی بتایا کہ مرکز نظام الدین میں کوئی سازش نہیں کی جارہی تھی بلکہ وہ لاک ڈاؤن کے سبب وہاں پھنسے ہوئے تھے ہر جگہ کا یہی معاملہ تھا۔
انھوں نے یہ کہا کہ کورونا کا پہلا کیس 30 جنوری 2020 میں آیا تھا لیکن حکومت اس کے 52 دنوں بعد لاک ڈاؤن کا اعلان کرتی ہے۔
سید کے مطابق حکومت اس معاملے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے تبلیغی جماعت کو بدنام کررہی ہے لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔