احمدآباد: گجرات کے گودھرا شہر میں سنہ 2002 فروری کو ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین آج بھی انصاف کی امید لگائیں در بدر بھٹک رہے ہیں۔ Gujarat Riots
فرقہ وارانہ فساد کے عینی شاہد امتیاز قریشی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے سنہ 2002 فسادات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ 28 فروری 2002 کی بھیانک صبح آج بھی جب یاد کرتے ہیں تو روح کانپ جاتی ہے۔' Exclusive Interview with Gujarat Riots Victim
انہوں نے کہا کہ' وہ اس وقت 30 برس کے تھے اور نروڈا گاؤں میں پرنٹنگ کا بزنس کرتے تھے۔ وہاں 60 سے زیادہ مکانات مسلمانوں کے تھے۔ ہم نے 27 فروری کو یہ خبر سنی کہ گودھرا میں ایک ٹرین کے ڈبے کو جلا دیا گیا۔ اس کے بعد بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے لوگوں نے گجرات بند کا اعلان کیا، لیکن 28 فروری کی صبح 10 بجے سے ہی بھیڑنے ہمارے نروڈا گاؤں میں حملہ شروع کر دیا۔ ہمارے سامنے ہی ایک نئی نوایلی دلہن کا پیٹ چیر دیا گیا، گھروں کو جلایا گیا، لوگوں کو ہتھیاروں سے مارا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ''ہم ڈر کر کسی طرح نروڈا سے بھاگے اور کسی طرح شام کو پولس اسٹیشن پہنچے۔ بہت بھیانک منظر تھا، ایسا دن کبھی نہ آئے۔ ایک ماہ بعد جب ہم پنچ نامے کے لیے اپنے گھر گئے تب دیکھا کہ ہمارا گھر جلا دیا گیا تھا اور جو حصہ باقی تھا اسے توڑ دیا گیا تھا، ہماری تجوری بھی لوٹ لی گئی تھی۔ آج کی قیمت کے حساب سے تقریباً 30 لاکھ کا نقصان ہوا، لیکن ہمیں معاوضہ بہت کم دیا گیا۔'
امتیاز قریشی نے مزید کہا کہ' اس وقت میری بیوی اور دو بچے میرے ساتھ تھے۔ جو بہت ہی کم عمر کے تھے۔ فسادات کے بعد ہمیں شاہ عالم درگاہ میں لگے کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ جہاں 5 ہزار سے زائد فساد متاثرین پناہ لیے ہوئے تھے۔ ہم نے وہاں 6 ماہ گزارا۔ ہمیں وہاں بھی بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔'
'اس کے بعد ہم فساد متاثرین کے لیے بنائی گئی کالونی میں رہنے لگے۔ دوبارہ اپنا بزنس شروع کیے اور آج بھی ہم فساد سے ابھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ '2002 نروڈا گاؤں کا کیس ابھی بھی زیر التوا ہے، ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔ انصاف کی لڑائی ہم گذشتہ 20 برسوں سے لڑ رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ انصاف ملے گا اور ملزمین کو سخت سے سخت سزا ملے گی۔'
مزید پڑھیں: