احمدآباد: گجرات بھر میں آشوب چشم یعنی آنکھ آنے کے کیسز میں اضافہ ہوتے جا رہا ہے۔ سائنس کی دنیا میں اسے کنجکٹی وائٹس (conjunctivitis) کہا جاتا ہے جو ایک طرح کا وائرس ہے۔ گزشتہ 15 دنوں میں اس بیماری سے گجرات کے بیشتر شہروں اور اضلاع کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں کیا ہے یہ بیماری؟ اور کیسے پھیل رہی ہے اور اس کا علاج کیا ہے اس پر ای ٹی وی نمائندہ روشن آرا نے احمدآباد میں موجود گلوبل آئی ہاسپٹل کے آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر پرویز ٹانک سے خصوصی بات چیت کی۔
یہ بھی پڑھیں:
اس تعلق سے ڈاکٹر پرویز ٹانک نے بتایا ہے کہ جانتے ہیں کہ یہ لوگوں میں کیسے ہوتا ہے۔ یہ جو آنکھ انے کی بیماری ہے۔ جس کو ہماری لینگویج میں بولتے ہیں کنجکٹی وائٹس (conjunctivitis)۔ یہ کنجکنٹی وائٹس ہے یہ آج کل جو پھیلا ہوا ہے یہ ہر سال ہوتا ہے۔ مانسون کے سیزن میں جب بارش ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ چیز جو ہے وہ عام طور پہ زیادہ دیکھنے ملتی ہے۔ وہ کافی زیادہ ہو گیا ہے تو اس کے بارے میں تھوڑی جانکاری لوگوں تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔ یہ وائرس سے ہونے والے بیماری ہے تو اس کو ہم وائرل کنجنٹی وائٹس کہیں گے۔ مطلب کہ یہ بیماری ایک وائرس سے پھیلتی ہے اور تھوڑا ٹائم تک پریشان کرتی ہے۔ مریض کو اس کے بعد دھیرے دھیرے سے اس کا اثر کم ہونے لگتا ہے۔ تو اس میں جو بھی دوائیاں دی جاتی ہیں، جیسے کووڈ میں ہم نے دیکھا تھا جو بھی دوائی ہم کووڈ میں دے رہے تھے، وہ ساری دوائیاں جو بھی اس میں پرابلمز ہو رہے تھے، جیسے بخار آنا یا کھانسی ہو رہی تھی۔ زکام ہو رہا تھا اس کو کم کرنے کی دوائیاں ہم دے رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ کووڈ کے لیے اسپیسیفک کوئی دوائی نہیں ہوتی ہے تو اسی طرح سے یہ وائرس کا جو انفیکشن ہے اسی میں جو بھی پیشنٹس کو پرابلم پیش آتی ہے۔ جیسے کہ آنکھ سوج جانا آنکھ میں سے پانی نکلنا جس میں ہلکا ہلکا سا درد ہونا۔ لال ہو جانا۔ کیچڑ پانی آنا تو یہ ساری پرابلمز جو ہیں اس کو ہم دوائی سے کچھ کم کر سکتے ہیں لیکن اگر یہ بیماری زیادہ پھیل جاتی ہے۔ کمپلیکیشنز ہو جاتے ہیں تو وہ آنکھ میں اور پرابلمز کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بچنے کے لیے ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ ہمیں بار بار ہاتھ کو دھونا چاہیے۔ ٹھیک ہے یہ بیماری ایک دوسرے کو دیکھنے سے نہیں پھیلتی عام طور پہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مریض کی آنکھ میں دیکھو گے تو آپ کو یہ بیماری ہو جائے گی تو ویسا بالکل بھی نہیں ہے۔
یہ بیماری دیکھنے سے بالکل بھی نہیں پھیلتی ہے۔ یہ بیماری جو ہے وہ مریض کی آنکھوں میں ہوتی ہے اگر مجھے یہ وائرس ہوا ہے تو میری آنکھ میں سے جو پانی آ رہا ہے یا جو ڈسچارج ہوا اسے ہم کہیں لگا دیتے ہیں یا اگر میرے ہاتھ میں اس کو ہاتھ میں لگاؤں گا پھر وہ ہاتھ میں کسی اور کے ہاتھ کے ساتھ ملاؤں گا تو اس سے وہ اسپریڈ ہوسکتا ہے۔ اس طرح سے ایک مرض سے دوسرے میں پھیلتا ہے تو ہر مریض کو یہ دھیان رکھنا ہے کہ اپ کو اپنی آنکھ کو بالکل بھی چھونا نہیں چاہیے جتنا اپ کم چھووں گے اتنا آپ اس کو اسپریڈ کرنے سے روک پاؤ گے دوسری چیز یہ ہے کہ اگر اپ کو ایک آنکھ میں بھی ہوا ہے تو پھر وہ آپ اس کو مسل کے دوسرے آنکھوں میں وہی ہاتھ لگاؤ گے تو دوسرے آنکھ میں بھی پھیل سکتی ہے تو یہ جو بیماری ہے اس کو روکنے کا ایک ہی علاج ہے کہ آپ اس کو ٹچ کرنا کم سے کم کر دیجیے اس کو بالکل آنکھ کو چھونا نہیں ہے اگر آپ کو بہت زیادہ اریٹیشن محسوس ہو تو آپ ٹشو پیپر ہے یا کاٹن ہے۔ ایسی چیزوں سے آپ اس کو صاف کر سکتے ہو تاکہ وہ چیز آپ صاف کر کے سیدھا ڈسٹ بن میں ڈالو گے ڈسکارٹ کر دو گے تو کسی اور کے کانٹیکٹ میں آنے کے چانسز بالکل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس بیماری سے بچنے کے لیے ہمیں بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جس میں خاص طور سے ہم اہم چیز ذاتی حفظان صحت پر برقرار رکھنا ہے ہاتھ اور منہ کو صاف رکھیں ہاتھ اور منہ کو بار بار صابن سے دھوئیں گئے ضروری طور پر بھیڑ والی جگہ پر جانے سے گریز کریں عام طور پر اگر انکھوں میں سرخی ، درد ہو یا سوجش ہو تو علاج کے لیے قریبی آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس جائیں ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر آئی ڈراپس نہ ڈالیں ڈراپ لگانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کو صابن سے دھونا چاہیے اس بیماری سے متاثرہ مریض کے ذاتی استعمال کی تمام اشیا کو الگ الگ رکھنا چاہیے مریض کو خود دوسروں کے ساتھ رابطے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور مریض کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو چشمے سے اپنے آنکھوں کی حفاظت کرے اور چشمہ پہنے رکھیں اور بار بار کوئی چیز کو ناچھویں نہ بار بار اپنے آنکھوں پر ہاتھ لگائے نہ آنکھیں مسلے، ایسا کرنے سے یہ بیماری اور بھی زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ اور عام طور پر یہ بھی بیماری ہفتے بھر میں ٹھیک بھی ہو جاتی ہے۔