ETV Bharat / state

کیا آپ جانتے ہیں ریڈیو خریدنے کے لیے لائسنس بھی ضروری تھا؟

زمانہ بھلے ہی اسمارٹ فونز اور ٹیکنالوجی کا ہو لیکن ریڈیو کے لیے لوگوں کی دیوانگی آج بھی کم نہیں ہوئی ہے، ورلڈ ریڈیو ڈے کے موقع پر خصوصی پیشکش۔

ورلڈ ریڈیو ڈے
ورلڈ ریڈیو ڈے
author img

By

Published : Feb 13, 2020, 10:19 AM IST

Updated : Mar 1, 2020, 4:38 AM IST

ہر برس 13 فروری کو عالمی یوم ریڈیو کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں ریڈیو خریدنے کے لیے لائسنس کا ہونا بھی ضروری تھا۔

عالمی یوم ریڈیو پر خصوصی پیشکش، ویڈیو

جی ہاں ریاست گجرات کے دارالحکومت احمدآباد کے غلام محمد انصاری کے پاس آج بھی ریڈیو لائسنس بک موجود ہے جس آج بھی پوسٹ آفس کی ٹکٹیں چسپاں ہیں۔

آج ہم ریڈیو، ٹیلی ویژن اور موبائل فونز دکانوں سے خرید کر لے آتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں کسی لائسنس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

اگر یہ کہا جائے کہ ایک زمانے میں یا آج سے چالیس برس قبل ریڈیو خریدنے کے لیے پوسٹ آفس سے اس کا لائسنس لینا پڑتا تھا تو لوگ حیران ہوجائیں گے۔

ریڈیو کے لیے جاری کردہ لائسنس
ریڈیو کے لیے جاری کردہ لائسنس

اس تعلق سے ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے غلام محمد انصاری نے کہا کہ 'آج سے 40 برس قبل ریڈیو خریدنے کے لیے سب سے پہلے ریڈیو خریدنے کی رسید پوسٹ آفس سے حاصل کرنی پڑتی تھی، اس کے بعد ایک لائسنس بک دی جاتی تھی جس پر ریڈیو، ٹیلی ویژن لائسنس چھپا ہوتا تھا نیز اس کے سرورق پر ریڈیو کا ٹاور اور ریڈیائی شعاعیں نظر آتی تھی۔

ریڈیو کے لیے جاری کردہ لائسنس پر چسپاں ڈاک ٹکٹ
ریڈیو کے لیے جاری کردہ لائسنس پر چسپاں ڈاک ٹکٹ

اس لائسنس کو انڈین پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کے ذریعے جاری کیا جاتا تھا اور اس ادارے کا لوگو بھی اسی سرورق کے نیچے بائیں جانب چھپا ہوتا تھا جو ایک دائرے میں اپنی ماتحتی کا ثبوت پیش کرتا تھا۔

واضح رہے کہ اس لائسنس بک یا کتابچے کے دوسرے صفحے پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ ریڈیو جاری رکھنے کے لیے زر سالانہ کے طور پر ڈاک گھر کی مخصوص ٹکٹ لگائی جاتی ہے اور اس پر لائسنس یافتہ کے ذریعے سالانہ فیس ادا کرنے پر پوسٹ آفس کی مہر بھی لگائی گئی ہیں۔

اُس زمانے اور آج کے زمانے کے اقتصادی حالات اور مہنگائی سے موازنہ کیا جائے تو سنہ 1978 میں ریڈیو کی سالانہ فیس 17 روپے بہت زیادہ ہوتی تھی اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں ریڈیو جاری رکھنے کی سالانہ فیس ایک عام آدمی کے بس سے باہر تھی۔

ورلڈ ریڈیو ڈے
ورلڈ ریڈیو ڈے

غلام محمد انصاری کے والد صاحب نے ایک ریڈیو خریدا تھا، ریڈیو کے لائسنس بک میں ریڈیو کے آئین اور اصول و ضوابط لکھے ہوتے تھے، اس تعلق سے غلام محمد انصاری نے کہا کہ اس لائسنس بک میں کل 16 اصول و ضوابط درج ہوتے تھے۔

اس کے علاوہ اگر ریڈیو کو فروخت کرنا چاہتے تھے تو اس تعلق سے ایک عرضی متعلقہ دفتر کو دینی ہوتی تھی اور فریقین کی رضامندی پر مبنی عرضداشت پیش کرنے کے بعد ہی کسی دوسرے شخص کے نام پر یہ لائسنس منتقل کیا جا تا تھا۔

حالاںکہ آج کے دور میں ہم بغیر لائسنس کے ریڈیو خرید تو سکتے ہیں لیکن موجودہ دور میں ریڈیو کی اہمیت ہی ختم ہو رہی ہے، جدید ٹیکنالوجی اور وسائل نے ریڈیو کی اہمیت کو کم کر دیا اس کے باوجود آکاش وانی یا آل انڈیا ریڈیو کی نشریات جاری و ساری ہیں، ساتھ ہی ریڈیو ایف ایم نے اس میں تازگی بھرنے کی کوشش کی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ نریندر مودی بھارت کے ایسے پہلے وزیراعظم ہے کہ جنہوں نے 'من کی بات' نامی پروگرام کے ذریعے آکاشوانی میں ایک نئی روح پھونکی ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

ہر برس 13 فروری کو عالمی یوم ریڈیو کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں ریڈیو خریدنے کے لیے لائسنس کا ہونا بھی ضروری تھا۔

عالمی یوم ریڈیو پر خصوصی پیشکش، ویڈیو

جی ہاں ریاست گجرات کے دارالحکومت احمدآباد کے غلام محمد انصاری کے پاس آج بھی ریڈیو لائسنس بک موجود ہے جس آج بھی پوسٹ آفس کی ٹکٹیں چسپاں ہیں۔

آج ہم ریڈیو، ٹیلی ویژن اور موبائل فونز دکانوں سے خرید کر لے آتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں کسی لائسنس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

اگر یہ کہا جائے کہ ایک زمانے میں یا آج سے چالیس برس قبل ریڈیو خریدنے کے لیے پوسٹ آفس سے اس کا لائسنس لینا پڑتا تھا تو لوگ حیران ہوجائیں گے۔

ریڈیو کے لیے جاری کردہ لائسنس
ریڈیو کے لیے جاری کردہ لائسنس

اس تعلق سے ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے غلام محمد انصاری نے کہا کہ 'آج سے 40 برس قبل ریڈیو خریدنے کے لیے سب سے پہلے ریڈیو خریدنے کی رسید پوسٹ آفس سے حاصل کرنی پڑتی تھی، اس کے بعد ایک لائسنس بک دی جاتی تھی جس پر ریڈیو، ٹیلی ویژن لائسنس چھپا ہوتا تھا نیز اس کے سرورق پر ریڈیو کا ٹاور اور ریڈیائی شعاعیں نظر آتی تھی۔

ریڈیو کے لیے جاری کردہ لائسنس پر چسپاں ڈاک ٹکٹ
ریڈیو کے لیے جاری کردہ لائسنس پر چسپاں ڈاک ٹکٹ

اس لائسنس کو انڈین پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کے ذریعے جاری کیا جاتا تھا اور اس ادارے کا لوگو بھی اسی سرورق کے نیچے بائیں جانب چھپا ہوتا تھا جو ایک دائرے میں اپنی ماتحتی کا ثبوت پیش کرتا تھا۔

واضح رہے کہ اس لائسنس بک یا کتابچے کے دوسرے صفحے پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ ریڈیو جاری رکھنے کے لیے زر سالانہ کے طور پر ڈاک گھر کی مخصوص ٹکٹ لگائی جاتی ہے اور اس پر لائسنس یافتہ کے ذریعے سالانہ فیس ادا کرنے پر پوسٹ آفس کی مہر بھی لگائی گئی ہیں۔

اُس زمانے اور آج کے زمانے کے اقتصادی حالات اور مہنگائی سے موازنہ کیا جائے تو سنہ 1978 میں ریڈیو کی سالانہ فیس 17 روپے بہت زیادہ ہوتی تھی اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں ریڈیو جاری رکھنے کی سالانہ فیس ایک عام آدمی کے بس سے باہر تھی۔

ورلڈ ریڈیو ڈے
ورلڈ ریڈیو ڈے

غلام محمد انصاری کے والد صاحب نے ایک ریڈیو خریدا تھا، ریڈیو کے لائسنس بک میں ریڈیو کے آئین اور اصول و ضوابط لکھے ہوتے تھے، اس تعلق سے غلام محمد انصاری نے کہا کہ اس لائسنس بک میں کل 16 اصول و ضوابط درج ہوتے تھے۔

اس کے علاوہ اگر ریڈیو کو فروخت کرنا چاہتے تھے تو اس تعلق سے ایک عرضی متعلقہ دفتر کو دینی ہوتی تھی اور فریقین کی رضامندی پر مبنی عرضداشت پیش کرنے کے بعد ہی کسی دوسرے شخص کے نام پر یہ لائسنس منتقل کیا جا تا تھا۔

حالاںکہ آج کے دور میں ہم بغیر لائسنس کے ریڈیو خرید تو سکتے ہیں لیکن موجودہ دور میں ریڈیو کی اہمیت ہی ختم ہو رہی ہے، جدید ٹیکنالوجی اور وسائل نے ریڈیو کی اہمیت کو کم کر دیا اس کے باوجود آکاش وانی یا آل انڈیا ریڈیو کی نشریات جاری و ساری ہیں، ساتھ ہی ریڈیو ایف ایم نے اس میں تازگی بھرنے کی کوشش کی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ نریندر مودی بھارت کے ایسے پہلے وزیراعظم ہے کہ جنہوں نے 'من کی بات' نامی پروگرام کے ذریعے آکاشوانی میں ایک نئی روح پھونکی ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

Last Updated : Mar 1, 2020, 4:38 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.