ETV Bharat / state

Gujarat Elections 2022 کانگریس، اویسی اور عآپ کی بندر بانٹ میں بی جے پی کی چاندی

گجرات میں اسمبلی انتخابات انتہائی دلچسپ بنتے جارہے ہیں۔ لگ رہا ہے کہ اپوزیشن کا ووٹ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان تقسیم ہورہا ہے اور ان نشستوں پر جہاں مسلم ووٹ کو کافی اہمیت حاصل ہے، اسد الدین اویسی کی مجلس اتحادالمسلمین ووٹوں کے حصے بخرے کرنے کیلئے میدان میں آچکی ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر بلال بٹ نے اس دلچسپ صورتحال کا احاطہ کیا ہے۔

1
1
author img

By

Published : Nov 26, 2022, 12:53 PM IST

Updated : Nov 26, 2022, 2:54 PM IST

گجرات کے اسمبلی انتخابات دلچسپ ہوتے جا رہے ہیں، خاص طور پر جن حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد زیادہ ہے وہاں امیدواروں کی بھرمار ہے۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) جو بظاہر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ پارٹی مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کرتی ہے، نےگجرات میں اپنے پہلے اسمبلی انتخابات میں چودہ امیدواروں، جن میں بارہ مسلم ہیں، کو ان نشستوں پر میدان میں اتارا ہے جہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد رہتی ہے۔ ان امیدواروں سے بی جے پی کیلئے آسانی سے جیت درج کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اویسی کے امیدواروں کا میدان میں آنا دیگر اپوزیشن پارٹیوں کیلئے ایک چیلنچ بن گیا ہے۔

اس کے برعکس، بی جے پی کے پاس ریاست میں ایک وفادار ووٹر بیس ہے اور ان پر اثر انداز ہونا مشکل ہے۔ کانگریس اور عآپ کا دارومدار غیر بی جے پی ووٹروں پر ہوتا ہے جو ان کی ووٹر بیس بناتے ہیں۔ گجرات کے مسلمانوں نے جو کہ بی جے پی مخالف سمجھے جاتے ہیں نے ہمیشہ بی جے پی کے متبادل کے طور پر کانگریس کو ووٹ دیا ہے، لیکن اس الیکشن میں ان کے لیے بہت سے متبادل موجود ہیں، جو مسلم ووٹوں میں بڑی تقسیم کا سبب بن سکتے ہیں۔

بہار کی گوپال گنج سیٹ پر حال ہی میں ختم ہونے والا ضمنی انتخاب اس بات کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کس طرح اپوزیشن کی طاقت کو اپنے جھولے میں ڈال سکتی ہے۔ یہاں بی جے پی اور آر جے ڈی میں تقریباً 1794 ووٹوں کا فرق تھا اور اے آئی ایم آئی ایم کو تقریباً 12214 ووٹ ملے جو اصل میں آر جے ڈی کے کھاتے سے کم ہوئے۔ اگر اویسی نے عبدالسلام کو بطور امیدوار کھڑا نہ کیا ہوتا تو آر جے ڈی نے گوپال گنج سیٹ تقریباً 10,000 ووٹوں کے فرق سے جیت لی ہوتی۔ اسی طرح احمد آباد کی جمال پور-کھیڈا سیٹ کسی بھی طرح سے بہار کی گوپال گنج سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ یہاں بھی بھاجپا کے مقابلے میں اپوزیشن کا ووٹ کانگریس، عآپ اور اویسی کے امیدوار کے درمیان تقسیم ہوگا۔

جمال پورکھیڈا کے مسلمانوں کی چھیپا آبادی حلقے میں رائے دہندگان کا ایک اہم حصہ بناتی ہے، اس لیے اس بار عمران کھیڑاوالا اور صابر کابلی والا، جو دونوں چھیپا طبقے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف میدان میں آگئے ہیں۔ عمران جمال پور-کھڈیا کے موجودہ ایم ایل اے ہیں، جب کہ صابر اویسی کی پارٹی کے ریاستی صدر ہیں۔ چھیپا برادری میں، ایک طویل عرصے سے یہ روایت رہی ہے کہ کسی خاص امیدوار کو ووٹ دینے کا متفقہ فیصلہ لیا جاتا ہے اور پھر پوری برادری اس فرمان پر عمل کرتی ہے۔ تاہم، اس بار، چونکہ دونوں امیدوار اسی برادری کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنا ذہن نہیں بنا پائیں گے اور ووٹروں کی یہ الجھن بی جے پی کے حق میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔

یہ خیال کہ اویسی بی جے پی کی بی ٹیم ہیں اور وہ جن امیدواروں کو میدان میں اتارتے ہیں وہ بی جے پی کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، کچھ عرصے سے زیر بحث ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اویسی کی ساکھ پر خاص طور پر بہار کی سیٹ پر ضمنی انتخابات کے بعد سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ عام تاثر ہے کہ یہ سیٹ بی جے پی کے پاس گئی کیونکہ اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار نے ووٹ تقسیم کیا۔ گجرات میں لوگوں نے اویسی کے خلاف احتجاج کیا اور اویسی مخالف نعرے لگائے جب وہ اپنے امیدواروں کی مہم چلا رہے تھے۔ مظاہرین نے انہیں بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنٹ کہا۔

اویسی نے باپو نگر سیٹ سے اپنے امیدوار کو دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ ڈیمیج کنٹرول کے طور پر کیا گیا یا سوچی سمجھی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر، جس نے باپو نگر سیٹ کانگریس کے امیدوار ہمت سنگھ کو چھوڑ دی جہاں پورے حلقے میں 16 فیصد مسلم ووٹ ہیں۔ اے آئی ایم آئی ایم کے شاہنواز پٹھان نے احمد آباد کی باپو نگر سیٹ سے اپنا نامزدگی واپس لی۔

اسی دوران، اویسی نے کانگریس کے موجودہ ایم ایل اے شیلیش پرمار کے خلاف ہندو درج فہرست ذات سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو احمد آباد کے دانیلمڈا حلقے سے بطور امیدوار کھڑا کیا۔ یہ ایس سی کے لیے مخصوص سیٹ ہے، اویسی کے امیدوار کھڑا کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور دلتوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ دانیلمڈا سیٹ پر ایس سی اور ایس ٹی کے ساتھ مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ اس حلقے کے کل 239999 ووٹرز میں سے تقریباً 65760 مسلم ووٹر ہیں، جو اسمبلی میں ان کا ووٹ شیئر 27 فیصد ہے۔

پورے گجرات میں تقریباً 11 فیصد ریاست کے ووٹر مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ ریاستی اسمبلی کی تقریباً 25 نشستوں پر مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم نے ان نشستوں پر توجہ مرکوز کی ہے جہاں مسلمان اور دلت تعداد میں نمایاں ہیں اور زیادہ تر فیصلہ کن رول ادا کرسکتے ہیں۔ اویسی کا وڈگام سیٹ پر ایک اور ایس سی امیدوار کو کانگریس ایم ایل اے اور معروف کارکن جگنیش میوانی کے خلاف کھڑا کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ سیٹیں جو بظاہر بی جے پی کے لیے ناقابل تسخیر تھیں، اب قابل حصول ہوگئی ہیں۔ میوانی نے 2017 میں آزاد امیدوار کے طور پر مقابلہ کیا اور کانگریس اور عآپ، دونوں نے بی جے پی کے خلاف جیتنے کے لیے جگنیش کے لیے سیٹ چھوڑ دی۔ وڈگام شیڈول کاسٹ کے لیے مخصوص سیٹ ہے جس میں مسلمانوں کی بھی بڑی آبادی 25 فیصد ہے۔

جہاں بی جے پی تمام 182 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے، وہیں کانگریس صرف 179 سیٹوں پر اپنے ممبران کو میدان میں اتار رہی ہے۔ 2017 کے انتخابات میں، بی جے پی نے سوراشٹرا کے تمام علاقے سے صرف 18 سیٹیں جیتیں جس میں 11 اضلاع ہیں، اور یہ تاریخی طور پر کانگریس پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں، نو کانگریسی جو سوراشٹرا اور کچھ میں ایم ایل اے تھے، بی جے پی میں چلے گئے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو 49 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ کانگریس کو 40 فیصد اور دیگر کو 10 فیصد ووٹ ملے تھے۔ تاہم اس بار کانگریس کا ووٹ شیئر ممکنہ طور پر اے اے پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے درمیان تقسیم ہو جائے گا جس سے بی جے پی کو کافی فائدہ ہوگا۔

دوسری طرف، ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے خطے میں اپنی خراب مہم کو دیکھتے ہوئے ہار مان لی ہے جبکہ وزیر اعظم سوراشٹرا کے علاقے میں جارحانہ طور پر مہم چلا رہے ہیں اور لوگوں سے ان کے لیے ووٹ دینے کے لیے اپیل کررہے ہیں۔

حیرت انگیز حقائق

لمبائیت حلقہ انتخاب میں 27 فیصد مسلم ووٹر ہیں جہاں 44 امیدوار مقابلہ کر رہے ہیں اور ان میں سے 36 مسلمان ہیں۔ یہاں مسلم ووٹر پریشان ہوگا جکہ کس کے حق میں ووٹ ڈالے۔

باپو نگر میں اگرچہ اے آئی ایم آئی ایم نے اپنی امیدواری سے دستبرداری لی، لیکن اس سیٹ کیلئے کل 29 امیدواروں میں سے اب بھی 10 مسلم امیدوار میدان میں ہیں۔

مزید پڑھیں: گجرات ضمنی انتخاب: این سی پی کے سبب سہ رخی مقابلہ

گجرات کے اسمبلی انتخابات دلچسپ ہوتے جا رہے ہیں، خاص طور پر جن حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد زیادہ ہے وہاں امیدواروں کی بھرمار ہے۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) جو بظاہر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ پارٹی مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کرتی ہے، نےگجرات میں اپنے پہلے اسمبلی انتخابات میں چودہ امیدواروں، جن میں بارہ مسلم ہیں، کو ان نشستوں پر میدان میں اتارا ہے جہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد رہتی ہے۔ ان امیدواروں سے بی جے پی کیلئے آسانی سے جیت درج کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اویسی کے امیدواروں کا میدان میں آنا دیگر اپوزیشن پارٹیوں کیلئے ایک چیلنچ بن گیا ہے۔

اس کے برعکس، بی جے پی کے پاس ریاست میں ایک وفادار ووٹر بیس ہے اور ان پر اثر انداز ہونا مشکل ہے۔ کانگریس اور عآپ کا دارومدار غیر بی جے پی ووٹروں پر ہوتا ہے جو ان کی ووٹر بیس بناتے ہیں۔ گجرات کے مسلمانوں نے جو کہ بی جے پی مخالف سمجھے جاتے ہیں نے ہمیشہ بی جے پی کے متبادل کے طور پر کانگریس کو ووٹ دیا ہے، لیکن اس الیکشن میں ان کے لیے بہت سے متبادل موجود ہیں، جو مسلم ووٹوں میں بڑی تقسیم کا سبب بن سکتے ہیں۔

بہار کی گوپال گنج سیٹ پر حال ہی میں ختم ہونے والا ضمنی انتخاب اس بات کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کس طرح اپوزیشن کی طاقت کو اپنے جھولے میں ڈال سکتی ہے۔ یہاں بی جے پی اور آر جے ڈی میں تقریباً 1794 ووٹوں کا فرق تھا اور اے آئی ایم آئی ایم کو تقریباً 12214 ووٹ ملے جو اصل میں آر جے ڈی کے کھاتے سے کم ہوئے۔ اگر اویسی نے عبدالسلام کو بطور امیدوار کھڑا نہ کیا ہوتا تو آر جے ڈی نے گوپال گنج سیٹ تقریباً 10,000 ووٹوں کے فرق سے جیت لی ہوتی۔ اسی طرح احمد آباد کی جمال پور-کھیڈا سیٹ کسی بھی طرح سے بہار کی گوپال گنج سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ یہاں بھی بھاجپا کے مقابلے میں اپوزیشن کا ووٹ کانگریس، عآپ اور اویسی کے امیدوار کے درمیان تقسیم ہوگا۔

جمال پورکھیڈا کے مسلمانوں کی چھیپا آبادی حلقے میں رائے دہندگان کا ایک اہم حصہ بناتی ہے، اس لیے اس بار عمران کھیڑاوالا اور صابر کابلی والا، جو دونوں چھیپا طبقے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف میدان میں آگئے ہیں۔ عمران جمال پور-کھڈیا کے موجودہ ایم ایل اے ہیں، جب کہ صابر اویسی کی پارٹی کے ریاستی صدر ہیں۔ چھیپا برادری میں، ایک طویل عرصے سے یہ روایت رہی ہے کہ کسی خاص امیدوار کو ووٹ دینے کا متفقہ فیصلہ لیا جاتا ہے اور پھر پوری برادری اس فرمان پر عمل کرتی ہے۔ تاہم، اس بار، چونکہ دونوں امیدوار اسی برادری کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنا ذہن نہیں بنا پائیں گے اور ووٹروں کی یہ الجھن بی جے پی کے حق میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔

یہ خیال کہ اویسی بی جے پی کی بی ٹیم ہیں اور وہ جن امیدواروں کو میدان میں اتارتے ہیں وہ بی جے پی کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، کچھ عرصے سے زیر بحث ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اویسی کی ساکھ پر خاص طور پر بہار کی سیٹ پر ضمنی انتخابات کے بعد سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ عام تاثر ہے کہ یہ سیٹ بی جے پی کے پاس گئی کیونکہ اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار نے ووٹ تقسیم کیا۔ گجرات میں لوگوں نے اویسی کے خلاف احتجاج کیا اور اویسی مخالف نعرے لگائے جب وہ اپنے امیدواروں کی مہم چلا رہے تھے۔ مظاہرین نے انہیں بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنٹ کہا۔

اویسی نے باپو نگر سیٹ سے اپنے امیدوار کو دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ ڈیمیج کنٹرول کے طور پر کیا گیا یا سوچی سمجھی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر، جس نے باپو نگر سیٹ کانگریس کے امیدوار ہمت سنگھ کو چھوڑ دی جہاں پورے حلقے میں 16 فیصد مسلم ووٹ ہیں۔ اے آئی ایم آئی ایم کے شاہنواز پٹھان نے احمد آباد کی باپو نگر سیٹ سے اپنا نامزدگی واپس لی۔

اسی دوران، اویسی نے کانگریس کے موجودہ ایم ایل اے شیلیش پرمار کے خلاف ہندو درج فہرست ذات سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو احمد آباد کے دانیلمڈا حلقے سے بطور امیدوار کھڑا کیا۔ یہ ایس سی کے لیے مخصوص سیٹ ہے، اویسی کے امیدوار کھڑا کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور دلتوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ دانیلمڈا سیٹ پر ایس سی اور ایس ٹی کے ساتھ مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ اس حلقے کے کل 239999 ووٹرز میں سے تقریباً 65760 مسلم ووٹر ہیں، جو اسمبلی میں ان کا ووٹ شیئر 27 فیصد ہے۔

پورے گجرات میں تقریباً 11 فیصد ریاست کے ووٹر مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ ریاستی اسمبلی کی تقریباً 25 نشستوں پر مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم نے ان نشستوں پر توجہ مرکوز کی ہے جہاں مسلمان اور دلت تعداد میں نمایاں ہیں اور زیادہ تر فیصلہ کن رول ادا کرسکتے ہیں۔ اویسی کا وڈگام سیٹ پر ایک اور ایس سی امیدوار کو کانگریس ایم ایل اے اور معروف کارکن جگنیش میوانی کے خلاف کھڑا کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ سیٹیں جو بظاہر بی جے پی کے لیے ناقابل تسخیر تھیں، اب قابل حصول ہوگئی ہیں۔ میوانی نے 2017 میں آزاد امیدوار کے طور پر مقابلہ کیا اور کانگریس اور عآپ، دونوں نے بی جے پی کے خلاف جیتنے کے لیے جگنیش کے لیے سیٹ چھوڑ دی۔ وڈگام شیڈول کاسٹ کے لیے مخصوص سیٹ ہے جس میں مسلمانوں کی بھی بڑی آبادی 25 فیصد ہے۔

جہاں بی جے پی تمام 182 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے، وہیں کانگریس صرف 179 سیٹوں پر اپنے ممبران کو میدان میں اتار رہی ہے۔ 2017 کے انتخابات میں، بی جے پی نے سوراشٹرا کے تمام علاقے سے صرف 18 سیٹیں جیتیں جس میں 11 اضلاع ہیں، اور یہ تاریخی طور پر کانگریس پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں، نو کانگریسی جو سوراشٹرا اور کچھ میں ایم ایل اے تھے، بی جے پی میں چلے گئے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو 49 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ کانگریس کو 40 فیصد اور دیگر کو 10 فیصد ووٹ ملے تھے۔ تاہم اس بار کانگریس کا ووٹ شیئر ممکنہ طور پر اے اے پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے درمیان تقسیم ہو جائے گا جس سے بی جے پی کو کافی فائدہ ہوگا۔

دوسری طرف، ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے خطے میں اپنی خراب مہم کو دیکھتے ہوئے ہار مان لی ہے جبکہ وزیر اعظم سوراشٹرا کے علاقے میں جارحانہ طور پر مہم چلا رہے ہیں اور لوگوں سے ان کے لیے ووٹ دینے کے لیے اپیل کررہے ہیں۔

حیرت انگیز حقائق

لمبائیت حلقہ انتخاب میں 27 فیصد مسلم ووٹر ہیں جہاں 44 امیدوار مقابلہ کر رہے ہیں اور ان میں سے 36 مسلمان ہیں۔ یہاں مسلم ووٹر پریشان ہوگا جکہ کس کے حق میں ووٹ ڈالے۔

باپو نگر میں اگرچہ اے آئی ایم آئی ایم نے اپنی امیدواری سے دستبرداری لی، لیکن اس سیٹ کیلئے کل 29 امیدواروں میں سے اب بھی 10 مسلم امیدوار میدان میں ہیں۔

مزید پڑھیں: گجرات ضمنی انتخاب: این سی پی کے سبب سہ رخی مقابلہ

Last Updated : Nov 26, 2022, 2:54 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.