سلطان احمد شاہ اول یعنی احمد شاہ نے اس مسجد کو تعمیر کرایا تھا جسے عام طور سے جمعہ مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ اس مسجد میں بڑی تعداد میں لوگ نماز ادا کرنے آتے ہیں جب کہ پوری دنیا سے احمد آباد آنے والے سیاح اس مسجد کی زیارت ضرور کرتے ہیں۔
جامع مسجد کی خصوصیت کی بات کریں تو اس مسجد کے چاروں جانب ایک مخصوص کالم گزر رہا ہے۔ 260 ستونوں پر 15 گنبد کھڑے ہیں۔ ان کالموں میں فارسی رسم الخط میں خطاطی کی گئی ہے۔
اس تعلق سے مسجد کے خادم شیخ احمد میاں نے بتایا کہ شاہی جامع مسجد گجرات کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے جس کی تعمیر احمدآباد کے بادشاہ نے 1411 میں شروع کروائی تھی۔
اس مسجد میں 15 گنبد اور 5 محراب ہیں۔ مسجد کے تین جانب خوبصورت کالم بنائے گئے ہیں جن کی دیواروں پر فن خطاطی کے پُرکشش نمونے نظر آتے ہیں۔ نماز ادا کرنے کے لیے وسیع صحن ہے اس کے درمیان میں وضو بنانے کے لیے حوض موجود ہے۔ اسی لیے اس مسجد کو عالمی ثقافتی ورثہ ( ورلڈ ہیریٹیج مونیومنٹ) میں شامل کیا گیا ہے۔
جامع مسجد ہندو۔مسلم فن تعمیر کا بھی امتزاج ہے کیونکہ اس مسجد کے مرکزی گنبد پر کمل کے پھولوں کی طرح ڈیزائن نقش کیے گئے ہیں جو اکثر جین مندروں کے مخصوص گنبدوں پر نظر آتے ہیں۔ کچھ ستونوں پر زنجیر سے لٹکی ہوئی گھنٹی کی طرح نقش و نگار دکھائی دیتے ہیں جو ہندو منادر میں لٹکتی گھنٹیوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔
اس مسجد کا وسیع و عریض صحن سنگ مرمر سے سجا ہوا ہے جو 75 میٹر لمبا اور 66 میٹر چوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسجد کی محرابیں خوبصورت زرد ریت کے پتھر سے بنی ہوئی ہیں۔ جامع مسجد میں داخل ہونے کے لیے 3 جانب دروازے بنے ہوئے ہیں۔
اس مسجد کے مرکزی دروازے پر دو مینارے بنے ہوئے تھے جو اب صرف ستون کی طرح نظر آتے ہیں کیونکہ یہ مینارے 1819 اور 1956 کے زلزلے میں متاثر ہوکر مخدوش ہوگئے۔ اس شاہی مسجد کی دیکھ ریکھ احمدآباد سنی مسلم وقف کمیٹی کرتی ہے۔
اس تعلق سے مسجد کے خادم شیخ احمد میاں نے بتایا کہ احمدآباد سنی مسلم وقف کمیٹی نے اس شاہی جامع مسجد میں 7 موذن مامور کئے ہیں۔ امام صاحب اور شاہی امام بھی ہیں جب کہ یہاں گجرات چاند کمیٹی بھی ہے جس کے ذریعے سال بھر چاند کی تصدیق کی جاتی ہے۔
احمدآباد کی یہ شاہی جامع مسجد فن تعمیر کا وہ خوبصورت نمونہ ہے جو پوری دنیا میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔