ETV Bharat / state

ڈوڈہ: ڈومیسائل قانون سے بیشتر آبادی نالاں

عوام کا الزام ہے کہ اس کے ذریعہ مرکزی ٓحکومت جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی سازش کر رہی ہے۔

people
people
author img

By

Published : Jul 5, 2020, 2:27 PM IST

پانچ اگست کو جب ریاست جموں کشمیر کو خصوصی درجہ فراہم کرنے والے دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کیا گیا تب سے ریاست کی بیشتر آبادی حکومت کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں رکھتی ہے۔

ڈوڈہ: ڈومیسائل قانون سے بیشتر آبادی نالاں

ریاست کو حاصل خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کے بعد مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو دو حصّوں میں تقسیم کرکے لداخ کو الگ مرکز زیر انتظام علاقہ بنایا گیا اور جموں کشمیر کو الگ مزکز زیر انتظام میں بانٹ دیا گیا۔

مرکز کے زیر اتنظام جموں و کشمیر میں اسٹیٹ سبجیکٹ کی جگہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کو متعارف کیا گیا ہے جس کو جموں و کشمیر کے ہر باشندے کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اب اس قانون کے تحت اُن تمام غیر ریاستی باشندوں کو جموں و کشمیر کا مستقل سکونتی تصور کیا جائے گا، جنہوں نے یہاں سات سال تعلیم حاصل کی ہے یا پندرہ سال سے یہاں نوکری کر رہے ہیں۔

ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے۔۔۔
ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے۔۔۔

اس وقت خطہ چناب میں ڈومیسائل بنانے کا عمل بڑے پیمانے پر شروع کیا گیا ہے عوام کی سہولیت کے لئے آن لائن درخواستیں جمع کرکے اس سند کو تیار کیا جا رہا ہے۔

اس کے متعلق خطہ چناب ضلع ڈوڈہ کے طلبہ و عام لوگوں کا رد عمل جاننے کے لئے ای ٹی وی بھارت نے لوگوں سے بات کی۔

ڈوڈہ میں تحصیلدار کا دفتر
ڈوڈہ میں تحصیلدار کا دفتر

ضلع ڈوڈہ کے مقامی باشندہ سجاد احمد میر نے بتایا کہ جموں و کشمیر میں لائے گئے نئے قانون ڈومیسائل کے وہ بلکل خلاف ہیں ۔ اُنہوں نے اس قانون کو نافذ کرنے پر حکومتی فیصلے کی سخت تنقید کی۔

میر نے کہا کہ حکومت جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے ایسے قانون بنا کر یہاں کے عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ یہ ڈومیسائل سند صرف غیر ریاستی باشندوں کو جموں کشمیر میں بسانے کی سوچھی سمجھی چال ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی عوام کو اس سے کافی نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ مقامی باشندے کا کہنا ہے کہ اس وقت لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس نے غریب عوام کو یرغمال بنا دیا ہے۔ حکومت بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے بجائے ایسا قانون نافذ کر رہی ہے جس سے یہاں بے روزگاری انتہا تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں ڈومیسائل بنانے کے لئے حکومت نے عوام کو پھنسانے کے لئے نوکریوں کا جھانسہ دیا ہے تاکہ بے روزگار نوجوان مجبوری میں یہ سند حاصل کر لیں اور حکومت اس بات کو سامنے لائے گی کہ جموں کشمیر کا نوجوان اس قانون سے خوش ہے۔

ایک دوسرے باشندے وسیم راجہ کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے لوگوں میں الھجن پیدا کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی متنازعہ قانون لا رہی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس وقت مرکزی حکومت اور انتظامیہ کو یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وقت تھا لیکن حکومت کے دماغ میں غلط سوچ چل رہی ہے۔حکومت کی اس خطہ کی عوام کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ یہاں پر غیر ریاستی لوگوں کو آباد کرنے کا ایک منصوبہ ہے اس لئے وہ ڈومیسائل کو سرے سے خارج کرتے ہیں۔

ڈوڈہ کے سماجی کارکن اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے جموں کشمیر کے لوگوں سے سب کچھ چھین لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی جو ایک کپڑا تن ڈھپنے کے لئے تھا اُس کو بھی یہ اُتار کر لے گئے ہیں۔ یہاں کی عوام کو دیوار کے ساتھ زبردستی کھڑا رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اب باقی کہنے کے لئے کچھ نہیں بچا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ خطہ چناب میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے لیکن اس سے عوام کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

ایڈوکیٹ محمد شہزاد نے بتایا کہ ڈومیسائل کو آن لائن فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے لیکن جب ہمارے یہاں 2 جی انٹرنیٹ چل رہا ہے، ایسے میں حکومت کے اس فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ فی الحال چناب ویلی ضلع ڈوڈہ میں اس قانون کی کوئی ضرورت نہیں تھی اگر حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کر لیا تھا پھر ایسے قانون کو کیوں لایا جس سے یہاں بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ غیر ریاستی باشندوں کو یہاں مستقل رہائشی بنانے سے مقامی باشندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے بہتر تھا کہ پہلے یہاں تعلیم،صحت، و دیگر شعبوں کے ڈھانچے کو مضبوط کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس سے قانون سے خطے کے باشندوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ایڈوکیٹ سنیت ٹھاکر نے بتایا کہ جب ریاست جموں کشمیر سے دفعہ 370 کو ہٹا لیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کا کوئی بھی شہری یہاں سکونت اختیار کر سکتا ہے۔

مستقل سکونتی بننے کے لئے جو لوازمات رکھے گئے ہیں، اگر کسی کے پاس وہ موجود ہیں تو اُن کو یہاں بسنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں بے روزگاری کا کوئی مسئلہ نہیں بنے گا بلکہ جب یہاں بڑی بڑی انڈسٹریز قائم ہوں گی تو یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔

طلبہ رہنما سلیندر پریہار نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے حوالے سے بتایا کہ ڈومیسائل قانون لانے سے پہلے تعلیم کے ڈھانچے کو مضبوط کرنا ضروری تھا۔ پریہار نے کہا کہ سب سے پہلے وہ ریاست کا درجہ بحال کرنے کی حکومت سے مانگ کرتے ہیں تاکہ یہاں عوامی مسائل کا ازالہ کیا جا سکے۔ وہ ڈومیسائل قانون سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے یہاں بے روزگاری میں اضافہ ہو گا، اس سے باقی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

ایسے میں دیکھنا ہوگا کہ اس ڈومیسائل سے جموں و کشمیر کی عوام کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔

پانچ اگست کو جب ریاست جموں کشمیر کو خصوصی درجہ فراہم کرنے والے دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کیا گیا تب سے ریاست کی بیشتر آبادی حکومت کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں رکھتی ہے۔

ڈوڈہ: ڈومیسائل قانون سے بیشتر آبادی نالاں

ریاست کو حاصل خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کے بعد مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو دو حصّوں میں تقسیم کرکے لداخ کو الگ مرکز زیر انتظام علاقہ بنایا گیا اور جموں کشمیر کو الگ مزکز زیر انتظام میں بانٹ دیا گیا۔

مرکز کے زیر اتنظام جموں و کشمیر میں اسٹیٹ سبجیکٹ کی جگہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کو متعارف کیا گیا ہے جس کو جموں و کشمیر کے ہر باشندے کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اب اس قانون کے تحت اُن تمام غیر ریاستی باشندوں کو جموں و کشمیر کا مستقل سکونتی تصور کیا جائے گا، جنہوں نے یہاں سات سال تعلیم حاصل کی ہے یا پندرہ سال سے یہاں نوکری کر رہے ہیں۔

ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے۔۔۔
ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے۔۔۔

اس وقت خطہ چناب میں ڈومیسائل بنانے کا عمل بڑے پیمانے پر شروع کیا گیا ہے عوام کی سہولیت کے لئے آن لائن درخواستیں جمع کرکے اس سند کو تیار کیا جا رہا ہے۔

اس کے متعلق خطہ چناب ضلع ڈوڈہ کے طلبہ و عام لوگوں کا رد عمل جاننے کے لئے ای ٹی وی بھارت نے لوگوں سے بات کی۔

ڈوڈہ میں تحصیلدار کا دفتر
ڈوڈہ میں تحصیلدار کا دفتر

ضلع ڈوڈہ کے مقامی باشندہ سجاد احمد میر نے بتایا کہ جموں و کشمیر میں لائے گئے نئے قانون ڈومیسائل کے وہ بلکل خلاف ہیں ۔ اُنہوں نے اس قانون کو نافذ کرنے پر حکومتی فیصلے کی سخت تنقید کی۔

میر نے کہا کہ حکومت جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے ایسے قانون بنا کر یہاں کے عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ یہ ڈومیسائل سند صرف غیر ریاستی باشندوں کو جموں کشمیر میں بسانے کی سوچھی سمجھی چال ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی عوام کو اس سے کافی نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ مقامی باشندے کا کہنا ہے کہ اس وقت لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس نے غریب عوام کو یرغمال بنا دیا ہے۔ حکومت بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے بجائے ایسا قانون نافذ کر رہی ہے جس سے یہاں بے روزگاری انتہا تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں ڈومیسائل بنانے کے لئے حکومت نے عوام کو پھنسانے کے لئے نوکریوں کا جھانسہ دیا ہے تاکہ بے روزگار نوجوان مجبوری میں یہ سند حاصل کر لیں اور حکومت اس بات کو سامنے لائے گی کہ جموں کشمیر کا نوجوان اس قانون سے خوش ہے۔

ایک دوسرے باشندے وسیم راجہ کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے لوگوں میں الھجن پیدا کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی متنازعہ قانون لا رہی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس وقت مرکزی حکومت اور انتظامیہ کو یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وقت تھا لیکن حکومت کے دماغ میں غلط سوچ چل رہی ہے۔حکومت کی اس خطہ کی عوام کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ یہاں پر غیر ریاستی لوگوں کو آباد کرنے کا ایک منصوبہ ہے اس لئے وہ ڈومیسائل کو سرے سے خارج کرتے ہیں۔

ڈوڈہ کے سماجی کارکن اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے جموں کشمیر کے لوگوں سے سب کچھ چھین لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی جو ایک کپڑا تن ڈھپنے کے لئے تھا اُس کو بھی یہ اُتار کر لے گئے ہیں۔ یہاں کی عوام کو دیوار کے ساتھ زبردستی کھڑا رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اب باقی کہنے کے لئے کچھ نہیں بچا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ خطہ چناب میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے لیکن اس سے عوام کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

ایڈوکیٹ محمد شہزاد نے بتایا کہ ڈومیسائل کو آن لائن فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے لیکن جب ہمارے یہاں 2 جی انٹرنیٹ چل رہا ہے، ایسے میں حکومت کے اس فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ فی الحال چناب ویلی ضلع ڈوڈہ میں اس قانون کی کوئی ضرورت نہیں تھی اگر حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کر لیا تھا پھر ایسے قانون کو کیوں لایا جس سے یہاں بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ غیر ریاستی باشندوں کو یہاں مستقل رہائشی بنانے سے مقامی باشندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے بہتر تھا کہ پہلے یہاں تعلیم،صحت، و دیگر شعبوں کے ڈھانچے کو مضبوط کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس سے قانون سے خطے کے باشندوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ایڈوکیٹ سنیت ٹھاکر نے بتایا کہ جب ریاست جموں کشمیر سے دفعہ 370 کو ہٹا لیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کا کوئی بھی شہری یہاں سکونت اختیار کر سکتا ہے۔

مستقل سکونتی بننے کے لئے جو لوازمات رکھے گئے ہیں، اگر کسی کے پاس وہ موجود ہیں تو اُن کو یہاں بسنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں بے روزگاری کا کوئی مسئلہ نہیں بنے گا بلکہ جب یہاں بڑی بڑی انڈسٹریز قائم ہوں گی تو یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔

طلبہ رہنما سلیندر پریہار نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے حوالے سے بتایا کہ ڈومیسائل قانون لانے سے پہلے تعلیم کے ڈھانچے کو مضبوط کرنا ضروری تھا۔ پریہار نے کہا کہ سب سے پہلے وہ ریاست کا درجہ بحال کرنے کی حکومت سے مانگ کرتے ہیں تاکہ یہاں عوامی مسائل کا ازالہ کیا جا سکے۔ وہ ڈومیسائل قانون سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے یہاں بے روزگاری میں اضافہ ہو گا، اس سے باقی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

ایسے میں دیکھنا ہوگا کہ اس ڈومیسائل سے جموں و کشمیر کی عوام کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.