لاک ڈاؤن اور اُس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے دوبارہ بندشوں کے نفاذ نے مزدور طبقہ کو فاقہ کشی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے اور قصبہ کے چھوٹے تاجر بھی سخت بندشوں کی وجہ سے بے روزگار ہو گئے ہیں۔
اس سلسلہ میں ڈوڈہ کے دکانداروں نے انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ ڈوڈہ قصبہ اور بھدرواہ میں بلا جواز بندشیں عائد کی گئی ہیں اسے فوری طور ہٹایا جائے جس کے لیے ڈوڈہ اور بھدرواہ میں انتظامیہ مخالف احتجاج بھی ہوئے۔
ایک جانب انتظامیہ کورونا کی روک تھام کے لیے قصبہ میں لاک ڈاؤن کو لازمی قرار دے رہی ہے لیکن دوسری جانب حکومتی سطح پر چلائے جا رہے 'جَن ابھیان پروگرام' دیہی علاقوں میں شد و مد سے جاری ہیں اور اس دوران 'بلاک دیوس' کی تقریبات میں ہزاروں افراد کی شرکت بھی انتظامیہ پر سوال کھڑے کر رہی ہے۔
قصبہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک جانب حکومت ہجوم اکٹھا ہونے کے ڈر سے بازار، کاروبار، تعلیمی اداروں کو بند رکھا ہے تو وہیں دوسری جانب دیہات میں 'بلاک دیوس' کے نام پر بھاری بھیڑ جمع ہورہی ہے اور ضلع ترقیاتی کمشنر (ڈوڈہ) اسی ہجوم میں جا کر لوگوں کے مشکلات سُنتے ہیں اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہکورونا وائرس کیا صرف شہر تک ہی محدود ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو دیہی علاقوں کی عوام کو کیوں اس مہلک وائرس کا ڈر دکھایا جا رہا ہے۔
بلاک دیوس، جن ابھیان، جن سنوائی، بیک ٹو ولیج پروگرام پر عوامی حلقوں میں شدید ناراضگی پائی جا رہی ہے کہ پہلے جو بیک ٹو ولیج پروگرام کئے گئے تھے اور گاؤں گاؤں جاکر جو ٹیمیں عوامی مسائل سُننے گئیں تھیں اُن مسائل کا ازالہ کیوں نہیں کیا گیا؟ جو فنڈس بیک ٹو ولیج کے لیے مختص کی گئی تھی اُنہیں جاری کیوں نہیں کیا گیا لیکن اب حکومت اور انتظامیہ دوبارہ ایسے وقت میں بلاک دیوس پروگرام منعقد کر رہی ہے جب ہجوم کی شکل مین اکٹھا ہونا ممنوع قرار دیا گیا۔