ETV Bharat / state

'عالمی ادب بذات خود ایک نوآبادیاتی تصور ہے'

پروفیسر انیس الرحمن نے کہا کہ بھارت کا لسانی منظر نامہ اتنا ہی بھرا پُرا ہے جتنا کہ اس کا ادبی منظر نامہ، جو کم و بیش چار ہزار برسوں، نو سو زبانوں اور دو ہزار بولیوں پر مشتمل ہے۔

author img

By

Published : Mar 12, 2020, 10:51 PM IST

عالمی ادب بذات خود ایک نوآبادیاتی تصور ہے
عالمی ادب بذات خود ایک نوآبادیاتی تصور ہے

ان باتوں کا اظہار معروف ترجمہ نگار اور نقاد پروفیسر انیس الرحمن نے کہی۔

انہوں نے شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے شعبہ سنسکرت، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ فراق یادگاری خطبے میں 'ہندوستانی ادب، تصور اور تناظر' کے عنوان سے منعقدہ میں کہا کہ بھارتی ادب کو ایک وحدت کی طرح نہیں بلکہ کثرت کی ایک مثال کی طرح دیکھنا چاہیے، کیوں کہ یہ ادب لسانی اور ثقافتی ہمہ رنگی کا ادب ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی ادب تراجم کے علاوہ تقابلی مطالعات کے لیے آج دنیا کا ایک بڑا مرکز ہے اور ایسا اس لیے ہے کہ بحیثیت ایک کثیر اللسان ملک یہاں لسانی آوزاوں کی گہما گہمی ہے اور اس کی بنا پر یہاں ہمہ جہت اور ہمہ رنگ و آہنگ ادبیات کا ایک بیش بہا بازار قائم ہے جو عالمی سطح پر اپنے آپ میں یکتا ہے۔

مابعد نوآبادیات اور مابعد جدیدیت کے حوالے بھارتی ادب کی قرأت کے کچھ نئے طریقے دریافت کیے جاسکتے ہیں۔ عالمی ادب کو ایک چھتری کے تحت جمع کرنے کی کوشش جاری ہے۔ عالمی ادب بذات خود ایک نوآبادیاتی تصور ہے۔

پروفیسر انیس الرحمن نے کہا کہ بھارت کا لسانی منظر نامہ اتنا ہی بھرا پُرا ہے جتنا کہ اس کا ادبی منظر نامہ، جو کم و بیش چار ہزار برسوں، نو سو زبانوں اور دو ہزار بولیوں پر مشتمل ہے
پروفیسر انیس الرحمن نے کہا کہ بھارت کا لسانی منظر نامہ اتنا ہی بھرا پُرا ہے جتنا کہ اس کا ادبی منظر نامہ، جو کم و بیش چار ہزار برسوں، نو سو زبانوں اور دو ہزار بولیوں پر مشتمل ہے

خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے ممتاز نقاد پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ بھارتی ادب کے حوالے سے فراق یادگاری خطبے کا فراق کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک مستحسن کوشش ہے، چوں کہ ہندوستانی ادب خود فراق کا ایک محبوب موضوع تھا۔ مشرقی اور مغربی روایت پر فراق کی نظر بہت گہری تھی۔

خصوصاً سنسکرت شعریات کو فراق نے جس طرح اردو کے شعری قالب میں ڈھالا اردو شاعری میں اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی ہے۔

نئی غزل پر سب سے زیادہ اثرات فراق ہی نے مرتب کیے ہیں۔استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ پروفیسر شمیم حنفی کا شمار ہمارے عہد کے ممتاز ترین نقادوں میں ہوتا ہے۔

وہ ایک ہمہ جہت ادیب، شاعر، ڈراما نگار، ترجمہ نگار، کالم نویس اور ماہر ثقافت ہیں۔ فراق یادگاری خطبے کے مہمان مقرر پروفیسر انیس الرحمن ہمارے عہد کے معروف اسکالر، ترجمہ نگار اور نقاد ہیں اور وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں، لہٰذا ہندوستانی ادب کے تصور اور تناظر پر ان سے بہتر نظر اور کس کی ہوسکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس اہم خطبے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا۔ اظہار تشکر کرتے ہوئے پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ مختلف زبانوں اور علوم و فنون کے فروغ کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک گہوارے کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہاں سے وابستہ بعض اساتذہ کا دانش وارانہ مقام عالمی سطح پر مسلم ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی اور پروفیسر انیس الرحمن کا شمار انھیں میں ہوتا ہے۔ فراق کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مبشر نے انھیں ہندوستانی تہذیب کا سفیر قرار دیا۔

نظامت کے فرائض فراق یاد گاری خطبے کے کنوینر پروفیسر ندیم احمد نے انجام دیے۔ سامعین میں پروفیسر شہناز انجم، پروفیسر وہاج الدین علوی، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، پروفیسر رضوان قیصر، پروفیسر حبیب اللہ، پروفیسر گریش چندر پنتھ، ڈاکٹر ابھے کمار شانڈلیہ، ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر عبدالرشید، پروفیسر خالد جاوید، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرور الہدیٰ، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر نعمان قیصر ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی اور ڈاکٹر سلمان فیصل کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرز اور طلبا و طالبات موجود تھے۔

ان باتوں کا اظہار معروف ترجمہ نگار اور نقاد پروفیسر انیس الرحمن نے کہی۔

انہوں نے شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے شعبہ سنسکرت، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ فراق یادگاری خطبے میں 'ہندوستانی ادب، تصور اور تناظر' کے عنوان سے منعقدہ میں کہا کہ بھارتی ادب کو ایک وحدت کی طرح نہیں بلکہ کثرت کی ایک مثال کی طرح دیکھنا چاہیے، کیوں کہ یہ ادب لسانی اور ثقافتی ہمہ رنگی کا ادب ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی ادب تراجم کے علاوہ تقابلی مطالعات کے لیے آج دنیا کا ایک بڑا مرکز ہے اور ایسا اس لیے ہے کہ بحیثیت ایک کثیر اللسان ملک یہاں لسانی آوزاوں کی گہما گہمی ہے اور اس کی بنا پر یہاں ہمہ جہت اور ہمہ رنگ و آہنگ ادبیات کا ایک بیش بہا بازار قائم ہے جو عالمی سطح پر اپنے آپ میں یکتا ہے۔

مابعد نوآبادیات اور مابعد جدیدیت کے حوالے بھارتی ادب کی قرأت کے کچھ نئے طریقے دریافت کیے جاسکتے ہیں۔ عالمی ادب کو ایک چھتری کے تحت جمع کرنے کی کوشش جاری ہے۔ عالمی ادب بذات خود ایک نوآبادیاتی تصور ہے۔

پروفیسر انیس الرحمن نے کہا کہ بھارت کا لسانی منظر نامہ اتنا ہی بھرا پُرا ہے جتنا کہ اس کا ادبی منظر نامہ، جو کم و بیش چار ہزار برسوں، نو سو زبانوں اور دو ہزار بولیوں پر مشتمل ہے
پروفیسر انیس الرحمن نے کہا کہ بھارت کا لسانی منظر نامہ اتنا ہی بھرا پُرا ہے جتنا کہ اس کا ادبی منظر نامہ، جو کم و بیش چار ہزار برسوں، نو سو زبانوں اور دو ہزار بولیوں پر مشتمل ہے

خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے ممتاز نقاد پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ بھارتی ادب کے حوالے سے فراق یادگاری خطبے کا فراق کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک مستحسن کوشش ہے، چوں کہ ہندوستانی ادب خود فراق کا ایک محبوب موضوع تھا۔ مشرقی اور مغربی روایت پر فراق کی نظر بہت گہری تھی۔

خصوصاً سنسکرت شعریات کو فراق نے جس طرح اردو کے شعری قالب میں ڈھالا اردو شاعری میں اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی ہے۔

نئی غزل پر سب سے زیادہ اثرات فراق ہی نے مرتب کیے ہیں۔استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ پروفیسر شمیم حنفی کا شمار ہمارے عہد کے ممتاز ترین نقادوں میں ہوتا ہے۔

وہ ایک ہمہ جہت ادیب، شاعر، ڈراما نگار، ترجمہ نگار، کالم نویس اور ماہر ثقافت ہیں۔ فراق یادگاری خطبے کے مہمان مقرر پروفیسر انیس الرحمن ہمارے عہد کے معروف اسکالر، ترجمہ نگار اور نقاد ہیں اور وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں، لہٰذا ہندوستانی ادب کے تصور اور تناظر پر ان سے بہتر نظر اور کس کی ہوسکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس اہم خطبے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا۔ اظہار تشکر کرتے ہوئے پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ مختلف زبانوں اور علوم و فنون کے فروغ کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک گہوارے کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہاں سے وابستہ بعض اساتذہ کا دانش وارانہ مقام عالمی سطح پر مسلم ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی اور پروفیسر انیس الرحمن کا شمار انھیں میں ہوتا ہے۔ فراق کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مبشر نے انھیں ہندوستانی تہذیب کا سفیر قرار دیا۔

نظامت کے فرائض فراق یاد گاری خطبے کے کنوینر پروفیسر ندیم احمد نے انجام دیے۔ سامعین میں پروفیسر شہناز انجم، پروفیسر وہاج الدین علوی، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، پروفیسر رضوان قیصر، پروفیسر حبیب اللہ، پروفیسر گریش چندر پنتھ، ڈاکٹر ابھے کمار شانڈلیہ، ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر عبدالرشید، پروفیسر خالد جاوید، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرور الہدیٰ، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر نعمان قیصر ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی اور ڈاکٹر سلمان فیصل کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرز اور طلبا و طالبات موجود تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.