ETV Bharat / state

لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کے بجائے حکومت کو تعلیم پر توجہ دینی چاہئے

author img

By

Published : Aug 26, 2020, 5:34 PM IST

لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے بڑھاکر 21 برس کرنے کی تجویز کے بعد ملک بھر میں اس مسئلہ پر ایک بار پھر بحث تیز ہوگئی ہے جبکہ بعض ماہرین کے مطابق عمر میں اضافہ کی وجہ سے ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت میں بہتری آئے گی وہیں دوسری جانب اس سے لڑکیوں کو جنسی سرگرمیوں کا مجرم قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ فی الوقت جنسی تعلقات کی رضامندی کی عمر 18 سال ہے اور اگر شادی کی عمر میں اضافہ کیا جاتا ہے تو 18 اور 21 کے درمیان جنسی تعلقات 'شادی سے پہلے جنسی تعلقات' کے زمرے میں آئیں گے۔

Why increasing womens age of marriage to 21 is a superficial idea; government should rather focus on education and jobs
لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کے بجائے حکومت کو تعلیم پر توجہ دینی چاہئے

ماہرین کے مطابق لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافے سے جنسی مساوات، خواتین کے حقوق یا لڑکیوں کو بااختیار بنانے میں کوئی خاص مدد نہیں ملے گی۔ لڑکیوں کی شادی کی عمر پر نظرثانی کےلیے حکومت کی تجاویز پر خواتین و بچوں کے حقوق کے ماہرین کی جانب سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

وزیر خارجہ نرملا سیتارامن نے رواں سال عام بجٹ کے دوران لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر میں اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کے بعد رکن پارلیمان جیا جیٹلی کی زیرصدارت 10 ارکان پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی جسے چھ ماہ کے اندر اپنی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی گئی۔

سو سے زائد سول سوسائٹی کی تنظیموں نے جو نوعمر اور نوجوانوں پر تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں، ٹاسک فورس کے سامنے تین عرضیاں داخل کی ہیں جس میں حکومت کی جانب سے شادی کی عمر میں ممکنہ اضافہ کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

بعض تنظیموں نے بتایا کہ یہ صرف ایک اچھا خیال ہوسکتا ہے کہ شادی کے وقت مرد اور عورت کی عمریں 21 سال ہو جو صنفی مساوات کی علامت ہے لیکن اس سے کس حد تک لبرل حلقوں میں اثر پڑے گا۔

حقوق نسواں کے ماہرین کا خیال ہے کہ بچیوں کی شادیوں میں کمی آرہی ہیں اور فی الوقت شادی کی عمر میں اضافہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسا کرنے کے بجائے لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔

شادی کی عمر میں ترمیم کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ایک مشترکہ بیان میں متعدد تنظیموں نے سوال کیا کہ شادی کی کم از کم عمر میں اضافہ کی وجہ سے کس طرح خواتین کی ترقی ہوگی؟ ان کے مطابق بنیادی مسئلہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھنا ہے اور جب تک کہ یہ سوچ تبدیل نہیں ہوتی شادی کی عمر 18 یا 21 سال کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

سنٹر فار ویمن ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کی ڈائرکٹر میری ای جان نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک خیال ہے کہ جو لوگ تعلیم یافتہ اور دولت مند ہوتے ہیں وہ زیادہ عمر میں شادی کرتے ہیں۔ حکومت کو غریبوں کی زندگی میں بہتری لانے کےلیے اقدامات کرنے چاہئے، غریبوں کےلیے تعلیم اور اچھی ملازمتیں فراہم کی جائیں تاکہ ان کی زندگی بہتر ہو۔ لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے 21 کرنے کا قانون بنانا مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ بھارت میں لوگ لڑکیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کی جلد سے جلد شادی کرکے انہیں سسرال بھیج دیا جائے۔ دراصل لوگوں کی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں کوئی قانون بنانے سے راتوں رات ایسی سونچ کو نہیں بدلا جاسکتا۔

ساری دنیا میں مرد و خواتین کےلیے شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر ہے۔ اقوام متحدہ کے 1992 میں حقوق اطفال کنونشن میں بھارت نے بچے کی تعریف 18 سال سے کم عمر کی حیثیت سے کی ہے۔ 2006 میں بچپن کی شادی کی روک تھام کے قانون میں کچھ بہتر دفعات کو شامل کیا گیا تھا۔ تجزیہ اور اعداد و شمار کے مطابق بچپن کی شادی ایکٹ کے تحت درج مقدمات میں زیادہ تر لوگوں کو سزا نہیں مل پاتیں۔

ماہرین کے مطابق لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافے سے جنسی مساوات، خواتین کے حقوق یا لڑکیوں کو بااختیار بنانے میں کوئی خاص مدد نہیں ملے گی۔ لڑکیوں کی شادی کی عمر پر نظرثانی کےلیے حکومت کی تجاویز پر خواتین و بچوں کے حقوق کے ماہرین کی جانب سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

وزیر خارجہ نرملا سیتارامن نے رواں سال عام بجٹ کے دوران لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر میں اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس کے بعد رکن پارلیمان جیا جیٹلی کی زیرصدارت 10 ارکان پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی جسے چھ ماہ کے اندر اپنی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی گئی۔

سو سے زائد سول سوسائٹی کی تنظیموں نے جو نوعمر اور نوجوانوں پر تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں، ٹاسک فورس کے سامنے تین عرضیاں داخل کی ہیں جس میں حکومت کی جانب سے شادی کی عمر میں ممکنہ اضافہ کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

بعض تنظیموں نے بتایا کہ یہ صرف ایک اچھا خیال ہوسکتا ہے کہ شادی کے وقت مرد اور عورت کی عمریں 21 سال ہو جو صنفی مساوات کی علامت ہے لیکن اس سے کس حد تک لبرل حلقوں میں اثر پڑے گا۔

حقوق نسواں کے ماہرین کا خیال ہے کہ بچیوں کی شادیوں میں کمی آرہی ہیں اور فی الوقت شادی کی عمر میں اضافہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسا کرنے کے بجائے لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔

شادی کی عمر میں ترمیم کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ ایک مشترکہ بیان میں متعدد تنظیموں نے سوال کیا کہ شادی کی کم از کم عمر میں اضافہ کی وجہ سے کس طرح خواتین کی ترقی ہوگی؟ ان کے مطابق بنیادی مسئلہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھنا ہے اور جب تک کہ یہ سوچ تبدیل نہیں ہوتی شادی کی عمر 18 یا 21 سال کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

سنٹر فار ویمن ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کی ڈائرکٹر میری ای جان نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک خیال ہے کہ جو لوگ تعلیم یافتہ اور دولت مند ہوتے ہیں وہ زیادہ عمر میں شادی کرتے ہیں۔ حکومت کو غریبوں کی زندگی میں بہتری لانے کےلیے اقدامات کرنے چاہئے، غریبوں کےلیے تعلیم اور اچھی ملازمتیں فراہم کی جائیں تاکہ ان کی زندگی بہتر ہو۔ لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے 21 کرنے کا قانون بنانا مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ بھارت میں لوگ لڑکیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کی جلد سے جلد شادی کرکے انہیں سسرال بھیج دیا جائے۔ دراصل لوگوں کی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں کوئی قانون بنانے سے راتوں رات ایسی سونچ کو نہیں بدلا جاسکتا۔

ساری دنیا میں مرد و خواتین کےلیے شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر ہے۔ اقوام متحدہ کے 1992 میں حقوق اطفال کنونشن میں بھارت نے بچے کی تعریف 18 سال سے کم عمر کی حیثیت سے کی ہے۔ 2006 میں بچپن کی شادی کی روک تھام کے قانون میں کچھ بہتر دفعات کو شامل کیا گیا تھا۔ تجزیہ اور اعداد و شمار کے مطابق بچپن کی شادی ایکٹ کے تحت درج مقدمات میں زیادہ تر لوگوں کو سزا نہیں مل پاتیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.