ETV Bharat / state

Article 370 permanent or temporary: کیا آرٹیکل 370 نے مستقل خصوصیت حاصل کی ہے؟ سپریم کورٹ کا سبل سے سوال - سپریم کورٹ کپل سبل دفعہ 370

دفعہ 370کو منسوخ کرنے کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں کی سماعت سپریم کورٹ میں دو اگست سے شروع ہوئی۔

ا
ا
author img

By

Published : Aug 3, 2023, 6:56 PM IST

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو سینئر وکیل کپل سبل سے سوال کیا کہ آیا آئین کی دفعہ 370 نے ایک مستقل خصوصیت حاصل کر لی ہے یا نہیں، یہ قابل بحث ہے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں اور جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت پر مشتمل پانچ رکنی بنچ آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ دفعہ 370کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی اختیارات حاصل تھے جسے مرکزی حکومت نے 5اگست 2019کو منسوخ کر دیا۔

سماعت کے دوسرے روز جسٹس کول نے سبل سے استفسار کیا: ’’ایک عرضی (نکتہ) ہے کہ آرٹیکل 370 نے آئین کی مستقل خصوصیت اختیار کر لی ہے جو ایک قابل بحث مسئلہ ہے۔ دوسرا یہ کہ فرض کریں کہ یہ مستقل نہیں ہے تو آرٹیکل کو منسوخ کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ کارروائی جاری رکھی جائے گی۔۔۔ یہ صرف دو مسائل ہیں۔‘‘ کپل سبل نے اس کے جواب میں کہا، ’’میں آپ کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ یہ (دفعہ 370) مستقل ہے۔ آپ کا فرمانا ہے کہ یہ قابل بحث ہے، بالکل یہ قابل بحث ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘ کول نے کہا کہ قابل بحث کا مطلب ہے کہ دونوں فریق مقدمہ پر بحث کریں گے، اور بحث بھی ہوگی، چاہے طریقہ کار کی پیروی کی گئی ہو نہیں کی گئی ہو۔

سبل نے اتفاق کیا اور (کہا کہ) عدالت کو جموں و کشمیر کے آئین کو دیکھنا ہوگا، جسے 1957 میں وضع کیا گیا تھا اور اس کی منظوری دی گئی تھی، اور اگر پارلیمنٹ آرٹیکل 356، صدر راج، کے تحت اقتدار سنبھالتی ہے اور ایمرجنسی کا اعلان کرتی ہے اور وہ صرف اسی کے حصے کا استعمال کر سکتی ہے۔ سبل نے ایک جموں و کشمیر کے آئین کی دفعات کا حوالہ بھی دیا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آرٹیکل 370 مستقل کیوں ہے۔

چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ سبل اس بات کی نشاندہی کرنے میں درست ہیں کہ آئینی طرز عمل کو جموں و کشمیر میں آئین کی دفعات کو منتخب طور پر لاگو کرنا ہے۔ جسٹس کول نے سبل سے کہا: ’’صرف مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ ایک مستقل جز بن چکا ہے، جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جا سکتی اور کیا (دفعہ 370 کی منسوخی کے سلسلے میں) کوئی طریقہ کار ہے، صحیح یا غلط۔۔۔ یہ آپ کی دلیل کا پہلا جز ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: Article 370 Abrogation Anniversary جموں وکشمیر میں صدر راج کے پانچ برس مکمل، اسمبلی انتخابات کب ہوں گے؟

سبل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کہ آئین (جموں و کشمیر پر اطلاق) آرڈر، 1954 کو اس وقت نافذ کیا گیا جب آئین ساز اسمبلی ابھی موجود تھی، اگر وہ چاہتے تو آرٹیکل 370 کو منسوخ کر سکتے تھے۔ سبل نے کہا، ’’ان کے پاس ایک انتخاب تھا۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ نہیں، ہم 370 کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں اور کسی بھی دوسری ریاست کی طرح ہندوستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اسمبلی 1951 میں تشکیل دی گئی تھی۔‘‘

واضح رہے کہ دفعہ 370کو بی جے پی نے 5اگست 2019کو منسوخ کر دیا تھا۔ آرٹیکل کی منسوخی کے بعد کئی افراد، سیاسی جماعتوں نے اس کی منسوخی کے خلاف عرضیاں دائر کی تھیں تاہم تین سال سے بھی زائد عرصہ تک ان عرضیوں کی سماعت نہیں ہوئی۔ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے دفعہ 370کے حوالہ سے 2اگست سے روزانہ کی بنیاد پر دفعہ 370کی سماعت طے کی تھی۔ بدھ کو شروع ہوئی سماعت جمعرات بھی جاری رہی اور ان دونوں دِنوں کے دوران عرضی گزار کپل سبل نے ہی دفعہ 370کے بارے میں اپنے دلائل پیش کیے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو سینئر وکیل کپل سبل سے سوال کیا کہ آیا آئین کی دفعہ 370 نے ایک مستقل خصوصیت حاصل کر لی ہے یا نہیں، یہ قابل بحث ہے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں اور جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت پر مشتمل پانچ رکنی بنچ آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ دفعہ 370کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی اختیارات حاصل تھے جسے مرکزی حکومت نے 5اگست 2019کو منسوخ کر دیا۔

سماعت کے دوسرے روز جسٹس کول نے سبل سے استفسار کیا: ’’ایک عرضی (نکتہ) ہے کہ آرٹیکل 370 نے آئین کی مستقل خصوصیت اختیار کر لی ہے جو ایک قابل بحث مسئلہ ہے۔ دوسرا یہ کہ فرض کریں کہ یہ مستقل نہیں ہے تو آرٹیکل کو منسوخ کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ کارروائی جاری رکھی جائے گی۔۔۔ یہ صرف دو مسائل ہیں۔‘‘ کپل سبل نے اس کے جواب میں کہا، ’’میں آپ کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ یہ (دفعہ 370) مستقل ہے۔ آپ کا فرمانا ہے کہ یہ قابل بحث ہے، بالکل یہ قابل بحث ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘ کول نے کہا کہ قابل بحث کا مطلب ہے کہ دونوں فریق مقدمہ پر بحث کریں گے، اور بحث بھی ہوگی، چاہے طریقہ کار کی پیروی کی گئی ہو نہیں کی گئی ہو۔

سبل نے اتفاق کیا اور (کہا کہ) عدالت کو جموں و کشمیر کے آئین کو دیکھنا ہوگا، جسے 1957 میں وضع کیا گیا تھا اور اس کی منظوری دی گئی تھی، اور اگر پارلیمنٹ آرٹیکل 356، صدر راج، کے تحت اقتدار سنبھالتی ہے اور ایمرجنسی کا اعلان کرتی ہے اور وہ صرف اسی کے حصے کا استعمال کر سکتی ہے۔ سبل نے ایک جموں و کشمیر کے آئین کی دفعات کا حوالہ بھی دیا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ آرٹیکل 370 مستقل کیوں ہے۔

چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ سبل اس بات کی نشاندہی کرنے میں درست ہیں کہ آئینی طرز عمل کو جموں و کشمیر میں آئین کی دفعات کو منتخب طور پر لاگو کرنا ہے۔ جسٹس کول نے سبل سے کہا: ’’صرف مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ ایک مستقل جز بن چکا ہے، جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جا سکتی اور کیا (دفعہ 370 کی منسوخی کے سلسلے میں) کوئی طریقہ کار ہے، صحیح یا غلط۔۔۔ یہ آپ کی دلیل کا پہلا جز ہے۔‘‘

مزید پڑھیں: Article 370 Abrogation Anniversary جموں وکشمیر میں صدر راج کے پانچ برس مکمل، اسمبلی انتخابات کب ہوں گے؟

سبل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کہ آئین (جموں و کشمیر پر اطلاق) آرڈر، 1954 کو اس وقت نافذ کیا گیا جب آئین ساز اسمبلی ابھی موجود تھی، اگر وہ چاہتے تو آرٹیکل 370 کو منسوخ کر سکتے تھے۔ سبل نے کہا، ’’ان کے پاس ایک انتخاب تھا۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ نہیں، ہم 370 کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں اور کسی بھی دوسری ریاست کی طرح ہندوستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اسمبلی 1951 میں تشکیل دی گئی تھی۔‘‘

واضح رہے کہ دفعہ 370کو بی جے پی نے 5اگست 2019کو منسوخ کر دیا تھا۔ آرٹیکل کی منسوخی کے بعد کئی افراد، سیاسی جماعتوں نے اس کی منسوخی کے خلاف عرضیاں دائر کی تھیں تاہم تین سال سے بھی زائد عرصہ تک ان عرضیوں کی سماعت نہیں ہوئی۔ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے دفعہ 370کے حوالہ سے 2اگست سے روزانہ کی بنیاد پر دفعہ 370کی سماعت طے کی تھی۔ بدھ کو شروع ہوئی سماعت جمعرات بھی جاری رہی اور ان دونوں دِنوں کے دوران عرضی گزار کپل سبل نے ہی دفعہ 370کے بارے میں اپنے دلائل پیش کیے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.